پلا ساقیا ارغوانی شراب
پلا ساقیا ارغوانی شراب
کہ پیری میں دے نوجوانی شراب
وہ شعلہ ہے ساقی کہ رنجک کی طرح
اڑا دیتی ہے ناتوانی شراب
کہاں بادۂ عیش تقدیر میں
پیوں میں تو ہو جائے پانی شراب
نہ لایا ہے شیشہ نہ جام و سبو
پلاتا ہے ساقی زبانی شراب
کہاں عقل برنا کہاں عقل پیر
نئے سے ہے بہتر پرانی شراب
مرے چہرۂ زرد کے عکس سے
ہوئی ساقیا زعفرانی شراب
ہوئے مست دیکھا جو پھولوں کا رنگ
پیالوں میں تھی ارغوانی شراب
کہاں چشمۂ خضر کیسے خضر
خضر ہے مری زندگانی شراب
خضر ہوں اگر میں تو جا کر پیوں
سر چشمۂ زندگانی شراب
گلستاں ہے پھولوں سے کیا لال لال
چلے ساقیا ارغوانی شراب
عجب ساقیا گندمی رنگ ہے
کہ پرتو سے بنتی ہے دھانی شراب
رہے طاق پر پارسائی امیرؔ
پلائے جو وہ یار جانی شراب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |