پنچایت
by اعظم کریوی
319618پنچایتاعظم کریوی

مہاراج رام لال مدن پور گاؤں کے پروہت تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور ملنسار تھے۔ کسرت کا خاص شوق تھا۔ جوانی میں انہوں نے کئی کشتیاں ماری تھیں۔ دور دور تک ان کی پہلوانی کا شہرہ تھا۔ مگر اب بڈھے ہوچکے تھے۔ اب خود تو کشتی لڑ نہیں سکتے تھے، بلکہ اکھاڑے کے کنارے کھڑے ہوکر اپنے شاگردوں کو داؤ پیچ بتایا کرتے تھے۔ جہاں بھی دنگل ہوتا مہاراج سو کام چھوڑ کر وہاں پہنچ جاتے۔ زمانہ بدل چکا تھا۔ نئے داؤ پیچ کے سامنے پرانے داؤ پیچ کی قدر نہ تھی۔ مگر مہاراج اپنا پرانا گر ہی بتایا کرتے۔ کوئی مانے یا نہ مانے مہاراج کو اپنی نصیحت سے کام تھا۔

مہاراج کو کوئی اولاد نہ تھی۔ سوائے مہاراجن کوشلیا کے اس دنیا میں اس کا اپنا اور کوئی نہ تھا۔ گھر میں ایک اچھی نسل کی گائے سدھیا تھی۔اس کی سیوا میں ان دونوں کا کافی وقت صرف ہوتا تھا۔ صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے مہاراج سدھیا کو ’’سانی‘‘ دیتے پھر دوسرا کام کرتے اور پوجا پاٹ کے لیے آسن جما کر بیٹھ جاتے۔

ساون بیتا ناگ پنچمی آئی۔ جس طرح میگھ کے درشن سے خوش ہو کر مور ناچنے لگتا ہے۔ اسی طرح ناگ پنچمی کے آتے ہی گاؤں میں بہار آگئی۔ درختوں میں جھولےپڑے تھے۔ اور گاؤں کی الھڑ لڑکیاں ملہار اور کجری کی تانیں اڑاتی تھیں۔ شوقین نوجوان بارہ ماسے گاتے تھے۔ چرواہے کی بانسری کی درد اور اثر میں ڈوبی ہوئی صدا کھیتوں اور جنگلوں میں انسانوں اور حیوانوں کو مست بنانے لگی۔ اجڑے ہوئے اکھاڑے پھر سے آباد ہوئے۔ پہلوانوں نے پھر سے نئے لنگوٹ بنوائے، عورتوں نے گوبر سےآنگن لیپے اور گاتی بجاتی کٹوروں میں دودھ چاول لیے ناگ دیوتا پوجنے چلیں۔ گاؤں کے قریب ہی منصور آباد میں دنگل تھا۔ بھلا ایسے موقع پر مہاراج رام لال کیسے خاموش بیٹھ سکتے تھے۔ وہ بھی اپےب شاگردوں کو ساتھ لے کر دنگل میں پہنچ گئے۔ اور خوب خوب کشتیاں لڑائیں اور خوش خوش گھر واپس ہوئے۔ واپسی میں بارش ہوگئی۔ دوستوں اور شاگرودں نے مہاراج کو راستہ میں بارش سے بچنے کے لیے کسی مکان میں بہت روکناچاہا مگر مہاراج میں یہی نقص تھا کہ وہ اپنے سامنے کسی کی کچھ سنتے نہ تھے۔ وہ یہی کہتے رہے کہ پہلوانوں کو بارش کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ میں اپنی جوانی میں تو ایسی بارش میں خاص طور سے کبڈی کھیلتا تھا۔ جب بارش میں بھیگتے ہوئے بڈھے مہاراج گھر واپس ہوئے تو ان کو سردی لگ گئی۔ مگر اکڑ میں کسی سے کچھ کہا نہیں۔ جب رات کو خوب زور کا بخار چڑھا تو مہاراجن نے گھبراکر گاؤں کے وید کو بلایا۔ ویدجی پڑھے نہ لکھے ’’فاضل نام‘‘ معلوم نہیں کیا دوا دی کہ صبح ہوتے ہوتے ہی مہاراج بیکنٹھ سدھارے۔

مہاراج کے مرتے ہی مہاراجن کی دنیا تاریک ہوگئی۔ چنانچہ مہاراج کے کریا کرم سے فراغت پاکر اس نے تیرتھ یاترا کی ٹھانی۔ چھوٹے لال بنیا کا گھر قریب ہی تھا۔ لالہ چھوٹے لال گاؤں کے ساہوکار تھے۔ شادی غمی کوئی تقریب ہو لالہ جی کی مدد کے بغیر پورا ہونا مشکل تھا۔ یوں تو گاؤں میں کہاراج کا ہر شخص سے بڑا میل تھا۔ لیکن لالہ جی تو ان کے لنگوٹیا یار تھے، مہاراج کے مرنے پر لالہ اور للائن دونوں نے مہاراجن سے بہت ہمدردی کااظہار کیا۔ اور کہاجب تک ہم لوگ زندہ ہیں تم کسی بات کی فکر نہ کرنا۔ مہاراجن نے آنسو بھر کر کہا ’’سو آپ ہی لوگوں کا تو اب سہارا رہ گیا۔ اوپر بھگوان اور نیچے آپ لوگ ہی مجھ دُکھیا کے سب کچھ ہیں۔‘‘ جب لالہ جی گھر جانے لگے تو مہاراجن نے کہا ’’میں دو تین دن میں تیرتھ یاترا کے لیے جاؤں گی۔ یہ گھر آپ کو سنبھالنا پڑے گا۔ میری سُدھیا کی بھی دیکھ بھال کرنی ہوگی۔‘‘ اتنا کہہ کر مہاراجن کوٹھری میں گئیں اور وہاں سے ہاتھ میں ایک پوٹلی لے کرنکلیں۔ اور لالہ جی کے ہاتھ میں دے کر کہا ’’لیجیے یہ میری امانت ہے۔ اپنے یہاں رکھ لیجیے۔ اگر یاترا سے واپس لوٹی تو امانت واپس لے لوں گی ورنہ آپ انہیں کسی دھرم کے کام میں خیرات کردیجیے گا۔‘‘

لالہ جی نے پوٹلی کھول کر دیکھا تو اس میں سونے کی ایک ہنسلی، چاندی کے لچھے، کڑے، چمپاکلی اور بازوبند کے ساتھ ہی پانچ سو روپے نقد تھے۔ لالہ جی کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ مہاراجن کو اتنا مالدار نہیں سمجھتے تھے۔ دلی جذبات کو دباکر لالہ جی نے کہا ’’اچھا تو میں تمہاری اس امانت کو جمع کرکے بہی میں لکھ لوں گا۔ یہاں قلم دوات اور کاغذ تو نہ ہوگا۔ چلو میرے گھر تک وہاں رسید لکھ دوں۔‘‘

مہاراجن بولیں ’’نہیں لالہ جی! مجھے آپ پر اعتبار ہے۔ مجھے رسید کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ میرے سرگباشی پتی کے دوست ہیں۔ اس گاؤں میں آپ سے زیادہ مجھے اور کسی کا اعتبار نہیں۔‘‘

للائن بیچ ہی میں بول اٹھیں۔ ’’تو کب تک تیرتھ یاترا سے واپسی ہوگی۔‘‘

اب یہ تو رام جانیں۔ پریاگ راج، کاشی، چترکوٹ، متھرا بندرابن اور ہردوار کی تیرتھ کرکے واپس آؤں گی۔

مہاراجن تیرتھ یاترا کو گئیں۔ تو سال بھر تک ان کا پتہ ہی نہ ملا کہ وہ کہاں ہیں۔ ایک دن للائن نے لالہ جی سے کہا، کیا بات ہے اب تک مہاراجن تیرتھ یاترا سے واپس نہیں آئیں؟

لالہ جی گھٹنوں تک دھوتی چڑھائے توند پھیلائے ایک طرف پھٹے ٹاٹ پر بیٹھے تھے۔ بہی کھاتہ کھلا تھا۔ اور وہ سود بڑھانے کی فکر میں مگن تھے۔ بیچو کمہار پر پچیس روپے بیاج ہوگئے۔ بدھو مان کو اب زیادہ مہلت نہ دینی چاہیے، سود در سود میں اس کا مکان لکھ لینا چاہیے۔ میکو چمار کے کھیت کو رہن رکھ لینا چاہیے۔ مگر یہ سرکار تو نئے نئے قانون سے ہم ساہوکاروں کاناک میں دم کیے ہے۔ ساہوکارہ ایکٹ۔ انتقال اراضی ایکٹ اور نہ جانے کون کون ایکٹ پیکٹ۔ جب دیکھو ہمارے خلاف ایک نیا قانون۔ ہم کسی کی خوشامد تو کرتے نہیں، جس کی ضرورت ہوتی ہے ہم سے روپیہ قرض لیتا ہے۔ اب اگر ہمارا قرض ادا نہ ہو اور ہم اصل اور سود در سود کی نالش کرتے ہیں تو کیا بے جا کرتے ہیں۔‘‘

للائن نے دوبارہ دریافت کیا تو لالہ جی جیسے سوتے سے چونک اٹھے اور بولے ’’تم کو مہاراجن کی پڑی ہے۔ اور میرا سود ڈوبا جارہا ہے۔ نئے قانون سے تو جان مشکل میں پھنسی ہے۔ مہاراجن آئیں تو واہ!واہ نہ آئیں تو واہ! واہ!‘‘

للائن نے سرگوشی کے لہجہ میں کہا ’’اور ان کی امانت۔‘‘

’’تم چپ رہو تمہیں اس سے کیا مطلب۔ میں سب کچھ سمجھ لوں گا۔‘‘

’’کیا سمجھ لوگے؟‘‘

للائن! بس تم میں یہی تو بڑی کھراب (خراب) عادت ہے۔ بات پوچھتی ہو اور بات کی جڑ پوچھتی ہو۔ کہہ تو دیا کہ لین دین کا معاملہ ہے۔ اس میں تم دکھل (دخل) نہ دو، تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتی ہو۔

’’لیکن اتنا تو میں جانتی ہوں کہ تمہارے پاس مہاراجن کی امانت ہے۔‘‘

’’مگر تمہارے سوا گاؤں میں اور کسی کو تو نہیں معلوم۔‘‘

’’پرماتما کو تو معلوم ہے۔‘‘

’’آئی بڑی کہاں کی دیا دھرم کی مورتی بن کر۔ امانت رکھنے کا بھی تو بیاج لیا جاتا ہے۔ ہم مفت میں اپنے پاس امانت جمع رکھنے لگیں تو بس ہم کما بیٹھے ۔‘‘

یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ سدھیا کے چلانے کی آواز آئی۔ للائن نے گھر سے باہر نکل کر دیکھا کہ مہاراجن اپنی گائے سدھیا کے گلے میں باہیں ڈالے رو رہی ہیں۔ گویا بچھڑوں کا ملاپ ہو رہا ہے۔

تھوڑی دیر میں سارے گاؤں میں خبر پھیل گئی کہ مہاراجن تیرتھ یاترا سے واپس آگئیں۔ گاؤں میں بڑا میل ملاپ ہوتا ہے۔ بڑے چھوٹے سب مہاراجن کے درشن کے لیے دوڑ پڑے لیکن لالہ جی کو نہ جانے کیوں ملنے کی فرصت نہ تھی۔

دوچار دن کے بعد گھر کی صفائی اور ملنے والوں سے جب مہاراجن کو فرصت ملی تو انہیں ست نرائن کی کتھا اور برہمنوں کو بھوج دینے کی سوجھی۔ جو کچھ روپے پاس تھے وہ خرچ ہوچکے تھے۔ چنانچہ وہ اپنی امانت لینے کے لیے چھوٹے لال بنیا کے یہاں پہنچیں۔ مہاراجن کو دیکھ کر لالہ جی نے کہا۔ ’’ماف (معاف) کرنا مہاراجن، کام کی وجہ سے فرصت نہ ملی۔ میں آج تم سے ملنے آنے والا ہی تھا۔ کہو اچھی تو رہیں۔‘‘

’’سب آپ کی کرپا ہے۔‘‘

’’کہیے کیسے تکلیف کی۔‘‘

’’وہی اپنی امانت لینے آئی ہوں۔‘‘

’’سدھیا کو تو آپ لے جاچکی ہیں اب اور کیا چاہیے۔‘‘

مہاراجن نے لالہ کی طرف دیکھا اور کہا ’’میں اپنے روپے زیور لینےآئی ہوں۔‘‘

’’اچھا تو کل آئیے بہی دیکھ کر بتاؤں گا کہ میرے پاس آپ کی کونسی امانت ہے۔ سال بھر کی بات ہوگئی۔ کچھ اچھی طرح یاد نہیں۔‘‘

مہاراجن نے بہت کہا کہ ست نرائن کی کتھا اور بھوج کے لیے روپے کی بہت جلد ضرورت ہے۔ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ پانچ سو روپے، سونے کی ہنسلی اور چاندی کے لچھے، کڑے، چمپاکلی اور بازوبند ہی تو جمع ہیں۔ لیکن لالہ جی نے یہی کہا ’’میرے پاس بہت سے زیور گروی ہیں۔ میں کہاں تک یاد رکھوں۔ جب تک بہی نہ دیکھوں گا کچھ نہیں کہہ سکتا۔ پرانی بات ہے۔ بہی تلاش کرنی پڑے گی۔‘‘ آخر مایوس ہوکر مہاراجن کو واپس ہونا پڑا۔ دوسرے دن جب وہ پھر لالہ جی کے یہاں پہنچی تو معلوم ہوا کہ لالہ جی کسی کام کے لیے شہر گئے ہیں اور معلوم نہیں کب واپس ہوں گے۔ لالہ جی کے انتظار میں کئی دن بیت گئے۔

مہاراجن اسی بھرم میں تھیں کہ بہی دیکھ کر لالہ جی ان کی امانت واپس کردیں گے۔ مگر جب لالہ جی شہر سے واپس آئے اور انھوں نے ایک پرانی بہی دیکھی تو کہا ’’بہی میں تو صرف پچاس روپے اور چاندی کے لچھے جمع ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پانچ روپے مہینے کے حساب سے سدھیا گائے کی کھلائی میں ساٹھ روپے خرچ ہوئے۔ مہاراجن کے مکان کی مرمت میں دس روپے لگے۔ اس طریقے سے جمع اور خرچ برابر رہا۔ لالہ جی کےپاس اب مہاراجن کا ایک پیسہ جمع نہیں ہے۔‘‘

مہاراجن یہ سنتے ہی دنگ رہ گئیں۔ ساہوکار اتنا کمینہ اور بے ایمان ہوگا یہ انھوں نے کبھی نہ سوچا تھا۔ اب ساہوکار اپنے اصلی روپ میں ان کے سامنے تھا۔ ہائے مہاراجن نے امانت کی کوئی رسید کیوں نہ لی۔ لیکن اب پچھتانا بیکار تھا۔ مہاراجن بہت روئیں چلائیں خوشامدیں کیں، اپنی غریبی اور بیوگی کا واسطہ دیا۔ لیکن لالہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ وہ یہی کہتا رہا ’’ہجّاروں (ہزاروں) کا لین دین کرتا ہوں۔ تمہارے ساتھ بے ایمانی کیوں کروں گا۔‘‘

اس سے پہلے گاؤں والوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ ساہوکار کے یہاں مہاراجن کی امانت جمع ہے۔ مہاراجن نے بنیا کو ایماندار سمجھا تھا۔ گاؤں والوں کے خیال یا ڈر سے مہاراجن نے چپکے سے امانت جمع کرنے میں بہتری سمجھی تھی۔ لیکن اب وہ کب تک اور کیسے خاموش رہ سکتی تھیں۔ انھوں نے جب دیکھا کہ بے ایمان بنیا نہیں مانتا تو دہائی مچائی۔ گاؤں والے جمع ہوگئے۔ لیکن مہاراجن کے پاس کوئی رسید نہ تھی۔ گاؤں والے ساہوکار کو چھوڑ کر ایک غریب بیوہ کا کیسے ساتھ دیتے۔

گاؤں میں ہلچل مچ گئی۔ جس نے سنا اسی کو تعجب ہوا۔ مہاراجن ’’پنچایت‘‘ بلارہی تھیں۔ ایک غریب بیوہ برہمنی اور ساہوکار کا مقابلہ تا ۔ گواہ نہ شاہد آخر کس بوتے پر مہاراجن کو پنچایت بلانے کی ہمت پڑی۔ گاؤں والے تو مقدمہ بازی کے عادی تھے۔ اب تک گاؤں میں کوئی پنچایت نہ تھی۔ سب کے لیے نہ نئی بات تھی۔ گاؤں کے مکھیا جمال میاں نے مہاراجن کو بہت سمجھایا کہ جب تمھارے پاس کوئی رسید نہیں کوئی گواہ نہیں تو پنچایت بلانے سے کیا فائدہ۔ مگر مہاراجن نے یہی کہا ’’مکھیا جی! رسید ہوتی تو پھر لالہ جی کو بے ایمانی کرنے کی ہمت نہ پڑتی۔ مگر آپ دیکھ لیجیے گا کہ پنچایت سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ میں تو آپ سے فریاد کرتی ہوں مجھ غریب دکھیا پر اتنی دیا کیجیے کہ آپ پنچایت بلا دیجیے۔‘‘ مکھیا کے دروازے پرشام کو پنچایت جمی۔ بیچو نائی حقہ بھرنے کے لیے آگئے۔ تمہاکو کا خرچ مہاراجن نے اٹھایا۔ جب سب گاؤں والے جمع ہوگئے۔ تو پانچ پنچوں کا چناؤ ہوا۔ سالک رام کھتری، چوبے لال کاچھی، مادھو اہیر اور بدلو بھاٹ پنچ اور جمال میاں سرپنچ ہوئے۔ نہ کوئی میز تھی اور نہ کرسی۔ پنچوں کا اجلاس تھا۔ گاؤں کی پنچایت تھی۔ پنچوں کی نشست چارپائی پر تھی۔ اور گاؤں والے اِدھر ادھر زمین پر حلقہ مارے بیٹھے تھے۔ نہ چپراسی کی دھونس نہ پیشکار کا ڈر۔ مدعی مدعا عالیہ بغیر کسی وکیل کے پیش ہوئے۔ سب پنچوں نے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔ اور مہاراجن نے گنگا جل اٹھاکر پنچ پرمیشور کو نمسکار کیا اور مختصر طور پر جو کچھ چھوٹے لال بنیا کے یہاں امانت جمع رکھی تھی اس کا ذکر کیا۔ سالک رام پنچ نے جرح کی۔ تمہارے پاس اس کی کوئی رسید ہے؟

مہاراجن نے جواب دیا ’’جی نہیں۔‘‘

لالہ جی اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور بولے ’’دیکھ لی مہاراجن کی اکڑ۔‘‘

سرپنچ نے پھٹکارا ’’لالہ جی! چپ چاپ کھرے رہو، مہاراجن کا بیان ہو رہا ہے۔ تمہیں بولنے کی ضرورت نہیں۔ اتنا کہہ کر سرپنچ نے مہاراجن سے کہا۔ جب تمہارے پاس کوئی رسید نہیں تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ تم نے امانت چھوٹے لال بنیا کے یہاں جمع کی۔

جرح معقول تھی۔ سب پنچوں نے سرہلا دیا۔ مہاراجن نے کہا کہ ’’للائن بلائی جائیں‘‘۔ تھوڑی دیر میں للائن پنچوں کے سامنے پیش کی گئی۔ سب کا خیال تھا کہ مہاراجن سے یہ چوک ہوئی۔ بھلا للائن اپنے شوہر کے خلاف کیسے گواہی دیں گی۔ للائن کو دیکھ کر مہاراجن نے کہا ’’للائن لو یہ گنگا جل اٹھاکر قسم کھاؤ کیا میں نے پانچ سو روپے، سونے کی ایک ہنسلی، چاندی کے لچھے، کڑے، چمپاکلی اور بازوبند تیرتھ یاترا جانے سے پہلے تمہارے سامنے لالہ جی کو جمع کرنے کے لیے نہیں دیے۔ پنچ پرمیشور تمہارے سامنے بیٹھے ہیں۔ جھوٹ نہ بولنا تم کو اپنے پتی دیو کی قسم کھانی پڑے گی۔ تم پتی ورتا استری ہو۔ استری کے دھرم کا پالن کرو۔ اس سے صرف تمہارا ہی نہیں بلکہ تمہارے پتی دیو لالہ جی کا بھی کلیان ہوگا۔‘‘ وقت کی بات۔ پنچایت کا رعب۔ بھگوان کا ڈر اور مہاراجن کی پراثر تقریر نے للائن کے قدم ڈگمگادیے۔ لالہ چھوٹے لال کی جہاندیدہ نظروں نے بھانپ لیا کہ للائن جھوٹ نہ بولیں گی اور لالہ جی کی قلعی کھل جائے گی۔ وہ یہ سب کچھ سوچ کر یکبارگی پنچوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے اور بولے ’’للائن کی قسم کھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو کچھ مہاراجن نے کہا وہ سب سچ ہے۔ میں ان کی امانت واپس کرنے کو تیار ہوں۔ مجھ سے بھول ہوئی۔ معاف کیا جائے۔‘‘

اب کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہ تھی۔ معاملہ صاف ہوگیا تھا۔ پنچوں نے اپنا فیصلہ صادر کیا۔ اگر لالہ جی کو مہاراجن معاف کردیں تو خیر ورنہ انہیں ڈنڈ دینا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی ایک سال تک جب بھی گاؤں میں پنچایت ہوگی، لالہ جی اس کا خرچ اٹھائیں گے۔ ایک پنچایتی فرش بھی خریدا جائے گا۔ اس کی قیمت لالہ جی دیں گے۔ اتنا سن کر لالہ جی نے کہا ’’مجھے سب منظور ہے۔‘‘ اور یہ کہہ کر معافی کے لیے مہاراجن کے چرنوں میں جھک گئے۔ نیک دل مہاراجن نے بڑی خوشی سے معاف کردیا۔ للائن مہاراجن کے گلے سے لپٹ کر آنسو بہانے لگیں۔ ’’مہاراجن کی جے ہو!‘‘، ’’پنچایت زندہ باد!‘‘ کے نعروں سے تمام گاؤں گونج اٹھا۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.