پوشیدہ جب ہو راز کہ منہ میں زباں نہ ہو
پوشیدہ جب ہو راز کہ منہ میں زباں نہ ہو
ہم بات بھی کریں تو بغیر از فغاں نہ ہو
لے جائیں آہ مجھ کو مری بدگمانیاں
ظالم وہاں کہ تیرا پتہ بھی جہاں نہ ہو
زاہد عذاب عشق صنم لطف حق سمجھ
یعنی عذاب ہم کو یہاں ہو وہاں نہ ہو
نیرنگی چمن جو مجھے یاد آ گئی
گل پر ہوا گمان کہ برگ خزاں نہ ہو
تم کو مزہ نہ دے گی کبھی داستان عشق
جب تک ہمارے منہ سے یہ قصہ بیاں نہ ہو
ناقہ کو قیس کیا نہ لگا لائے راہ پر
لیلی کا رازدار اگر سارباں نہ ہو
تہمت کسی کو ظلم کی اے داغؔ کیوں لگائیں
شکوہ بتوں سے کیا جو خدا مہرباں نہ ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |