پوچھتے کیا ہو ترا یہ حال کیسا ہو گیا

پوچھتے کیا ہو ترا یہ حال کیسا ہو گیا
by صفی اورنگ آبادی

پوچھتے کیا ہو ترا یہ حال کیسا ہو گیا
تم نہ جانو تو خدا جانے مجھے کیا ہو گیا

عاشقی میں وہم بڑھتے بڑھتے سودا ہو گیا
قطرہ قطرہ جمع ہوتے ہوتے دریا ہو گیا

وہ سراپا ناز ہے مجھ سے برا تو کیا کروں
چار نے اچھا کہا جس کو وہ اچھا ہو گیا

عاشقی میں نام اگر درکار ہے بد نام ہو
دیکھ سب کچھ ہو گیا جب قیس رسوا ہو گیا

کچھ ہو لیکن اب مرا دل تم سے پھر سکتا نہیں
یہ تو جس کا ہو گیا کم بخت اس کا ہو گیا

اپنے پہلو میں بٹھایا آپ نے اغیار کو
دیکھیے بیٹھے بٹھائے کا یہ جھگڑا ہو گیا

لے لیا یاد مژہ نے مجھ کو سیل اشک سے
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا ہو گیا

داغ ہائے ہجر میں بھی دل میں ہیں خار شوق بھی
باغ کا باغ اور یہ صحرا کا صحرا ہو گیا

لے کے دل الزام دیتے ہو غنیمت ہے یہی
مال کا مول آ گیا ادلے کا بدلا ہو گیا

دل کی گھبراہٹ نسیم صبح دم سے کم ہوئی
وہ نہ آئے غیب سے سامان پیدا ہو گیا

کیا یہی ہے شرم تیرے بھولے پن کے میں نثار
منہ پہ دونوں ہاتھ رکھ لینے سے پردا ہو گیا

میری ہر اک بات قانون محبت ہے مگر
اے صفیؔ میں شاعری کرنے سے جھوٹا ہو گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse