پوچھتے ہیں وہ عشق کا مطلب

پوچھتے ہیں وہ عشق کا مطلب
by بشیر الدین احمد دہلوی

پوچھتے ہیں وہ عشق کا مطلب
اب نکل جائے گا مرا مطلب

اس پہ ظاہر ہوا مرا مطلب
کاش پورا کرے خدا مطلب

کہہ دیا ان سے برملا مطلب
اب خدا چاہے تو ہوا مطلب

بات پوری ابھی نہیں نکلی
منہ سے تم لے اڑے مرا مطلب

کہتے ہیں عرض وصل پر وہ کہو
دوسری بات دوسرا مطلب

ہے یہ مطلب نہ کچھ زباں سے کہوں
میں سمجھتا ہوں آپ کا مطلب

جو تمنا ہے تم پہ ظاہر ہے
ہر گھڑی پوچھنے سے کیا مطلب

دل میں جو کچھ تھا ان سے کہہ نہ سکا
لب پہ آ آ کے رہ گیا مطلب

مدعا ہے وہی جو پہلے تھا
اور میں کیا کہوں نیا مطلب

روبرو ان کے بات کر نہ سکا
خط میں آخر کو لکھ دیا مطلب

بات کیا ہے وہ مجھ سے پوچھتے ہیں
واقعہ قصہ ماجرا مطلب

واسطہ غیر کا نہیں اچھا
خوب بنتا ہے برملا مطلب

تم جو مل جاؤ کام بن جائے
اور اس کے سوا ہی کیا مطلب

آج خوش خوش بشیرؔ پھرتے ہیں
نکلا ارمان مدعا مطلب

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse