پُوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی

پُوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی (1935)
by محمد اقبال
296171پُوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی1935محمد اقبال

پُوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی
تُو صاحبِ منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی

کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی نہ فقیری
مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

کافر ہے تو ہے تابعِ تقدیر مسلماں
مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الٰہی

مَیں نے تو کِیا پردۂ اسرار کو بھی چاک
دیرینہ ہے تیرا مَرضِ کور نگاہی


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.