319597پٹیمرزا عظیم بیگ چغتائی

پٹیاں ایک تو وہ ہوتی ہیں جو چارپائیوں میں لگائی جاتی ہیں اور ایک وہ جو سپاہیوں کے پیروں پر باندھی جاتی ہیں، پھر اور بہت قسم کی پٹیاں بھی ہیں، لیکن میرا مطلب یہاں اس پٹی سے ہے جو پھوڑا پھنسی یا اسی قسم کی مصیبتوں کے سلسلے میں ڈاکٹروں کے یہاں باندھی جاتی ہیں۔

میری بیوی کے ملنے والیوں میں ایک لیڈی ڈاکٹر تھیں۔۔۔ میں چھٹیوں میں سسرال جانے والا تھا اور مس اروما نے مجھ سے کہہ دیا تھا کہ جس روز تم جاؤ مجھ سے ضرور مل لو، چنانچہ میں صبح تڑکے ہی مس صاحبہ کے بنگلے پر پہنچا۔ قبل اس کے میں بتاؤں کہ بنگلہ پر کیا ہوا، ایک دو باتیں کچھ کتوں کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں۔ وہ چھوٹے چھوٹے کتے جو خوبصورت کہے جاتے ہیں اور بنگلوں میں رہنے والے لامحالہ پالتے ہیں، یہ نالائق کتے خواہ کٹ کھنے نہ ہوں مگر ادھر آپ بنگلے میں داخل ہوئے اور اُدھر یہ سیدھے آپ کے اوپر۔۔۔ ظاہر اطوار پر کاٹ کھانے کے لیے، مگر در اصل آپ کو دوڑا کر اور رپٹا کر چت کرنے کی نیت سے۔ چنانچہ آپ یقین مانیں کہ یہی ہوا۔

مس اروما کے تین چھوٹے چھوٹے کتے اس بری طرح میرے اوپر حملہ آور ہوئے کہ میرے ہوش جاتے رہے۔ گلاب کے ایک بھرے کانٹوں کے درخت پر میں نے ایسے پیر رکھ دیا جیسے کوئی ریشمی گدوں پر رکھتا ہے۔ وہاں سے پھنس کر بدحواسی کے ساتھ گملے پھاندا، ایک پھاند گیا، دو پھاند گیا، تیسرے میں پیر ایسا لگا کہ منہ کے بل گرا اور ساتھ ہی کتے سر پر۔ جناب! کیا بتاؤں کس طرح بے تحاشا پھر اٹھا کہ کتوں نے ایسی ٹانگ لی کہ ایک کتے پر پیر پڑ گیا اور اب کے سڑک پر گرا۔ وہاں سے گھبرا کر سیدھا اٹھ کر برآمدے میں آیا۔ کتے پیچھے تھے۔ چق اٹھانے کی کسے مہلت تھی، مع چق کے توپ کے گولے کی طرح زور سے کمرے میں داخل۔ ادھر سے مس صاحبہ بدحواس چیختی آ رہی تھیں۔ میں اس بری طرح مس صاحبہ سے جا کر ٹکرایا کہ وہ کرسی پر چیخ مار کر گریں۔ میں نے سہارا دے کر جلدی سے اٹھایا۔ کتے کھڑے اب دم ہلا رہے تھے۔ وہی موذی جو لمحہ بھر پہلے میری جان لینے کو تیار تھے۔

(۲)

جب ذرا ہوش درست ہوئے تو ہم دونوں نے باتیں کرنا شروع کیں۔ مس صاحبہ نے اپنی سہیلی سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا۔ کچھ اور فضول باتیں کیں، اتنے میں ان کی نگاہ میرے ہاتھ پر پڑگئی جو انگوٹھے کی جڑ کے پاس سے سڑک پر گرنے سے رگڑ کھا کر کچھ چھل گیا تھا۔

’’اوہ۔۔۔ یہ۔۔۔ کیا!‘‘ یہ کہہ کر آپ نے اس نام نہاد زخم کا معائنہ کرتے ہوئے کہا، ’’میں ابھی اسے لوشن سے دھو کر ڈریس کئے دیتی ہوں۔‘‘ میں نے کہا، ’’اجی رہنے دیجیے کوئی بات بھی ہو۔‘‘ پریشان صورت بنا کر مس صاحبہ بولیں، ’’مرزا صاحب یہ معمولی بات نہیں، اس کو فوراً ڈریس کروانا چاہیے۔ ورنہ کہیں۔۔۔‘‘

’’ورنہ کہیں؟‘‘ میں نے سوال کیا، ’’ورنہ کیا؟‘‘ بھویں چڑھا کر کچھ خوف زدہ صورت بنا کر مس ارونا نے کہا، ’’ٹٹ۔۔۔ ٹیٹنس۔‘‘

’’ٹیٹنس!‘‘ یہ میرے لیے بالکل نیا لفظ تھا۔ معاً خیال گزرا کہ یہ شیکسپیئر کی ٹٹا نیا کے کہیں بھائی بند تو نہیں، چنانچہ میں نے تفصیل پوچھی۔ یہ ایک مرض ہے از قسم زہرباد۔ سڑک کی معمولی رگڑ سے ممکن ہے کہ خراش میں ذرا سوزش ہو اور رات ہی رات میں ہاتھ سوج کر دنبل ہوجائے اور صبح ہوتے ہوتے زہر باد شروع ہو جائے اور پھر۔۔۔! میں کچھ سہم سا گیا۔ اس خوفناک مرض کے پریشان کن حالات سنتا جاتا تھا اور مس اروما کی نازک انگلیوں سے پٹی بندھواتا جاتا تھا۔ بنگلے سے جو نکلا ہوں تو حلیہ یہ تھا کہ گلے میں ایک جھولا پڑا تھا اور اس میں جکڑ بند کیا ہوا ہاتھ۔ یہ کہ پہلے تانگے پر آیا تھا ورنہ سائیکل پر ہوتا تو اور قیامت تھی۔

(۳)

راستہ میں ایک جان پہچان کے ملے۔ سلام علیک کے ساتھ ہی انہوں نے تانگہ کو رکوایا، ’’ارے میاں! یہ کیا، خیر تو ہے؟‘‘ انہوں نے کہا۔ میں نے اس کے جواب میں قصہ سنایا کہ جناب سڑک پر رگڑ لگ گئی اور اس ڈر کی وجہ سے کہ ٹیٹنس نہ ہو جائے، یہ کارروائی عمل میں آئی ہے۔

’’لا حول و لا قوۃ!‘‘ انہوں نے زور سے قہقہہ لگایا اور ٹیٹنس اور اس کے امکان پر لعنت بھیجی، اور کہا کہ ’’کھول کھال کے پٹی پھینک دو اور اس کی جگہ سیندور اور تیل رگڑ کر لگا لو۔‘‘ اس کے بعد ایک صاحب اور ملے، انہوں نے بھی روکا۔ وہی بات چیت اور انہوں نے بھی ٹیٹنس پر لعنت بھیجی۔ خوب ہنسے اور مذاق اڑایا۔ قصہ مختصر راستے میں چار آدمی اور ملے۔ سب کے سب ’’ٹیٹنس‘‘ پر لعنت بھیجتے اور مجھ پر ہنستے۔ کسی نے کالی مرچیں بتائیں، کسی نے صندل بتایا۔ کسی نے کہا کہ کچھ نہ باندھ۔ یونہی سوکھ جائے گا۔

گھر پہنچا تو والد صاحب قبلہ نے پٹی کی تفصیل پوچھی۔ والدہ صاحبہ نے پوچھی۔ بھائی بہنوں نے پوچھی۔ غرض سب کو حال بتانا پڑا۔ پھر نوکروں کی باری آئی۔ گھر کی بوڑھی ملازمہ نے ہمدردی سے سنے سنائے کی تفصیل پوچھی کہ بیٹا یہ ’’ٹن ٹس‘‘ کیا ہے جو تمہارے دشمنوں کو ہونے کا ڈر ہے۔ بڑی بی نے جب لڑکوں سے سنا تو ٹیٹنس کو شاید ترکاری وغیرہ کی قسم سے کوئی چیز سمجھی تھیں۔ جس طرح ہو سکا ان کو بھی میں نے سمجھایا۔ اتنے میں باہر ایک ملنے والے آگئے۔ ان سے کسی نے سنی سنائی اڑادی تھی۔ بہت پریشان اور ہمدردانہ لہجہ میں انہوں نے تمام تفصیل پوچھی جو بتانا پڑی، یہ چلے گئے اور خربوزے والا آیا۔ روز آتا تھا بھلا کیسے بے پوچھے رہ جاتا۔ میں نے کہہ کر ٹالنا چاہا کہ چوٹ لگ گئی ہے کہ ملازم کا لڑکا بول اٹھا، ’’ٹیں ٹس‘‘ ہو گیا۔ ادھر میں نے لونڈے کی طرف گھور کر دیکھا ادھر خربوزے والا چکرا کر بولا، ’’میاں یہ ٹیس ٹس کیا؟ کیا کوئی پھڑیا کا نام ڈاکٹروں نے رکھا ہے۔‘‘ میں نے جل کر کہا، ’’مت بیہودہ بکو۔‘‘

اس سے فرصت پائی تھی کہ اندر گیا، تو والدہ صاحبہ کو دیکھا کہ وہ دو چار عورتوں کو ٹیٹنس پر لیکچر دے رہی ہیں۔ میں پہنچا تو مجھ سے بھی استدعا کی گئی کہ کچھ روشنی ڈالوں۔ اب میں تنگ تھا اور ٹیٹنس کے نام سے غصہ آتا تھا۔ جوں توں کر کے بلا ٹالی۔

(۴)

شام کو چار بجے کی گاڑی سے روانہ ہونے والا تھا۔ اس دوران میں لوگوں نے میرا ناطقہ بند کر دیا۔ اب میں صرف یہ کہہ کر ٹالنا چاہتا تھا کہ چوٹ لگ گئی ہے، مگر جناب پوچھنے والا بغیر ٹیٹنس کی بات چیت کے بھلا کاہے کو مانتا۔ وہ فوراً کہتا کہ فلاں صاحب سے سنا۔ وہ بتاتے تھے کہ ٹیٹنس ہونے کا اندیشہ ہے۔ مجبوراً جس طرح بن پڑتا جان چھڑاتا۔ گاڑی چھوٹنے سے پہلے ہی ایک حضرت سے اسی بنا پر بدمزگی ہوگئی۔

’’ارے میاں ہاتھ میں پٹی کیسی ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

’’معمولی چوٹ لگ گئی ہے۔‘‘

’’کیسے لگ گئی؟‘‘

’’سڑک پر گر پڑا تھا، خراش آ گئی۔‘‘

’’پھر کوئی بات تو نہیں؟‘‘

’’کوئی بات نہیں۔‘‘

’’مگر عبد الحمید صاحب ملے تھے وہ کہتے تھے کہ خدا نخواستہ ٹینس ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ یہ ٹیٹنس کیا ہوتا ہے۔‘‘

اب مجھے ایسا غصہ آیا کہ ان کا منہ نوچ لوں کیوں کہ محض مجھے تنگ کر رہے تھے۔ اول تو آپ غور کریں کہ انہوں نے خواہ مخواہ پوری تفصیل شروع سے پوچھی۔ حالانکہ عبد الحمید صاحب کا یہ اچھی طرح مغز کھا چکے تھے اور پھر ٹیٹنس کو پوچھتے ہیں کیا ہوتا ہے حالانکہ خوب اچھی طرح پوچھ چکے تھے۔ میں نے جل کر کہا، ’’ٹیٹنس ایک قسم کا بخار ہوتا ہے جس میں چھینک آتی ہیں۔‘‘

’’ہیں!‘‘ وہ بولے، ’’حمید صاحب تو کہتے تھے کہ زہرباد ہوتا ہے۔‘‘

’’معاف کیجیے گا۔‘‘ میں نے کہا، ’’تو پھر آپ جب جانتے ہیں کہ ٹیٹنس کیا بلا ہے تو میرا دماغ چاٹنے سے حاصل؟‘‘ ظاہر ہے کہ اس قسم کی گفتگو کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ وہ برامانے، میں اور بھی برا مانا۔ جس سے وہ اور بھی برا مانے۔

(۵)

میرے ڈبہ میں ویسے تو کئی آدمی تھے، مگر بالکل ہی پاس بیٹھنے والے ایک تو زمیندار صورت لکھنؤ کے اطراف کے مسلمان تھے۔ ایک اور صاحب کچھ فوجی نما معلوم ہو رہے تھے۔ خاکی قمیص اور نیکر پہنے تھے۔ ان کے پاس ہی ایک میرے ہم وطن یعنی مارواڑی مہاجر بیٹھے تھے۔ ان کے علاوہ دو ایک اور صاحبان بھی تھے۔ گاڑی چلی اور دو ایک اِدھر اُدھر کی زبردستی باتیں پوچھ کر ان فوجی حضرت نے آخر کو پوچھ ہی لیا کہ، ’’آپ کے ہاتھ میں یہ پٹی کیسی بندھی ہے؟‘‘ میں اس قسم کے سوالوں سے عاجز آ چکا تھا، فوراً کہہ دیا، ’’زخم ہو گیا ہے۔‘‘

’’کیسے؟‘‘ انہوں نے کہا۔ مارے غصہ کے میں نے کہا، ’’بات در اصل یہ ہے کہ مگر نے کاٹ کھایا ہے۔‘‘

’’مگر نے! مگر۔۔۔! مگر نے کاٹ کھایا؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘ میں نے لاپرواہی سے کہا۔

’’کیسے؟‘‘ انہوں نے نہایت اشتیاق کے ساتھ اب تفصیل پوچھنا چاہی کہ میں بیان کروں کہ کس طرح پانی یا دلدل میں مگر سے میرا سابقہ پڑا، مگر میں نے اب تنگ آ کر دوسری ترکیب سوچی تھی۔

’’منہ سے۔‘‘ میں نے کہا، ’’منہ سے کاٹ کھایا۔‘‘

’’جی ہاں۔‘‘ انہوں نے کچھ سر کو جنبش دے کر کہا، ’’منہ سے تو کاٹا ہی ہوگا، مگر کہاں پر آخر۔۔۔‘‘

جہاں چوٹ لگی تھی اور پٹی بندھی تھی میں نے وہ حصہ دوسرے ہاتھ سے پکڑ کر کہا، ’’یہاں پر کاٹ کھایا اور منہ دبا کر کاٹ کھایا۔‘‘ (منہ دبانے کی ہاتھ سے نقل بناتے ہوئے میں نے کہا۔ )

’’نہیں صاحب!‘‘ وہ دوسرے زمیندار صاحب بولے، ’’ان کا مطلب یہ ہے کہ آخر وہ کون سا مقام تھا، جہاں مگر نے کاٹ کھایا۔ کیا واقعہ ہوا تھا۔

میں نے اسی طرح روکھے منہ سے کہا، ’’عرض کیا نا۔ اسی مقام پر ہتھیلی کے پاس۔‘‘ میں نے پھر دوبارہ جگہ کو پکڑ کر کہا، ’’اسی مقام پر موذی نے کاٹ کھایا اور کوئی واقعہ تو ہوا ہی نہیں۔‘‘

کچھ چڑچڑا کر وہ بولے، ’’جی حضرت قصہ سنائیے، کس طرح کون سے دریا میں یاتال میں کیا معاملہ پیش آیا جو مگر نے آپ کی ہتھیلی میں کاٹ کھایا۔‘‘

’’اب میں سمجھا کہ آپ کا کیا مطلب ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’سنئے۔ واقعہ در اصل یہ ہوا کہ ہمارے پڑوس میں ایک دریا ہے، وہاں ایک بڑا سا مگر رہتا تھا۔ ایک روز میں نے بڑا زبردست مچھلی کا سا کانٹا کوئی دس سیر وزن کا بنوایا۔ اسے ایک موٹے سے تار کے رسے میں باندھ کر درخت سے باندھ دیا اور کانٹے پر گوشت لگا کر دریا میں ڈال دیا۔ اس میں مگر رات کے آٹھ بج کر تین منٹ پر پھنس گیا۔‘‘

اس مختصر بیان کو بھلا لوگ کاہے کو پسند کرتے۔ چاروں طرف سے سوالوں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ کسی نے پوچھا صاحب کانٹا کیسی نوک کا تھا۔ کسی نے کہا، کیا وہ نگل گیا؟ غرض طرح طرح کے سوال پیدا ہوگئے اور مجبوراً مجھ کو کچھ قصے مگر کے شکار کے اور سنانے پڑے۔ اس کے بعد میں نے جس طرح بھی ممکن تھا قصےکو افسانے کا رنگ دے کر بیان کرنا شروع کیا اور اس موقع پر پہنچا تھا کہ دس بارہ آدمیوں نے رسا کھینچا ہے اور زور سے تڑپ کر مگر نے پلٹا کھایا ہی ہے کہ دوسرا اسٹیشن آگیا۔ اسٹیشن آنے سے میرا قصہ بھلا کیا رکتا، مگر یہاں یہ مصیبت آئی کہ ایک صاحب بلا مبالغہ کوئی چھکڑا بھر اسباب کے ساتھ اسی ڈبہ پر حملہ آور ہوئے۔ اس گہما گہمی کے ساتھ انہوں نے اور ان کے ملازموں نے اسباب کی پھینکا پھینک اور ٹھونسا ٹھانس کی ہے کہ سب کو اپنے اپنے بوریے بستر اور جگہ کی پڑ گئی۔

یہ حضرت غالباً سب انسپکٹر پولیس تھے اور کسی دوسرے تھانے پر تبادلے کے سلسلہ میں لد رہے تھے۔ قوی ہیکل جوان تھے اور ان کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں۔ سامنے ہی دوسروں کی جگہ پر قبضہ کرکے اِدھر اُدھر سرک کر بیٹھ گئے اور فوراً مجھے پان پیش کیا۔ میری کم بختی کہ میں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ اس کے بعد فوراً انہوں نے موسم کی شکایت کی۔ میں جانتا ہی تھا کہ اب یہ مجھے چھیڑیں گے۔ چنانچہ اس کے بعد ہی انہوں نے بھی آخر کو گولہ دے مارا۔

’’کیوں جناب یہ آپ کے ہاتھ میں پٹی کیسی ہے؟‘‘

سوکھے منہ سے میں نے کہا، ’’پرسوں کالے سانپ نے کاٹ کھایا۔‘‘

’’ارے کالا سانپ!‘‘

میں نے کہا، ’’جی، کالا۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے اِدھر اُدھر ان لوگوں پر نظر ڈالی جن کو مگر والا قصہ سنا رہا تھا اور جو شاید اب بقیہ قصہ کی تکمیل کی فرمائش کرنے ہی والے تھے۔ کسی کے چہرے پر متانت تھی تو کسی کے چہرے پر مسکراہٹ۔

’’کہاں؟ کیسے؟ کہاں کاٹ کھایا؟ کیسے کاٹ کھایا؟ کب؟‘‘

’’میں نے عرض کیا نا کہ پرسوں کاٹ کھایا۔‘‘

’’کہاں؟‘‘ میں نے پٹی پر ہاتھ سے بتا کر کہا، ’’یہاں کاٹ کھایا۔ میں کھانا کھا رہا تھا۔‘‘

’’تو پھر کیا ہوا؟‘‘

’’پھر سانپ نے کاٹ کھایا۔‘‘ میں نے سادگی سے جواب دیا۔

’’کیسے؟‘‘

’’ایسے۔‘‘ میں نے انگلی سے چٹکی لے کر سانپ کے کاٹنے کی نقل بناتے ہوئے کہا، ’’ایسے کاٹ کھایا۔‘‘

’’اجی صاحب یہ مطلب نہیں۔ آخر کیا ہوا تھا۔ سانپ کیسے آیا اور واقعہ پورا پورا کیا ہے۔‘‘

اس کے بعد میں نے اپنے سانپ کاٹنے کا قصہ بیان کرنا شروع کیا، جو بدقسمتی سے اس وقت مجھے یاد نہیں، مگر خوب اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اپنا قصہ نہایت ہی خوش اسلوبی سے ختم کیا۔ جو لوگ مگر کا قصہ سن چکے تھے ان کے استفسارات کا میں نے نہایت ہی سادگی سے جواب دیا۔ میں نے کہا، ’’مگر بھلا کس طرح کاٹ سکتا ہے! مجھے مگر نے کبھی نہیں کاٹا۔‘‘ میری سنجیدگی پر پہلے تو وہ کچھ مسکرائے، پھر کچھ تشویش کا اظہار ان کے چہروں سے ہوا مگر میں بظاہر سنجیدہ تھا۔ میرے دل کو راحت پہنچ رہی تھی اور تمام دن کے صحیح جوابات سے جو کوفت پیدا ہوئی تھی وہ زائل ہو چکی تھی۔ بہ نسبت پہلے کے اب میں خوش تھا۔ ایک اندازِ بے نیازی کے ساتھ میں اخبار پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔

کئی اسٹیشن گزر گئے اور کوئی نووارد ایسا نہ آیا جو میری پٹی کا حال پوچھتا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ’’کبھی ناؤگاڑی پر، اور کبھی گاڑی ناؤ پر۔‘‘ اب میرا نمبر تھا اور میں منتظر تھا کہ کوئی مجھ سے پوچھے تو، مگر کسی نے نہ پوچھا حتی کہ میں گھر یعنی سسرال پہنچ گیا۔

(۶)

رات کے ساڑھے گیارہ بجے ہوں گے۔ خوشد امن صاحبہ کے سامنے فرش پر جا کر مؤدبانہ بیٹھ گیا۔ سلام و دعا کے بعد پہلا سوال جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا، ’’یہ تمہارے پٹی کیسی بندھی ہے؟‘‘

’’گولی لگ گئی۔‘‘ میں نے جل کر کہا۔

’’یا علی! گولی!‘‘ چونک کے وہ بولیں، ’’گولی خدا خیر کرے کیسے لگ گئی؟‘‘

’’بندوق کی نال سے‘‘ میں نے کہا۔

’’بیٹا آخر کیا ہوا تھا، کیسے بندوق چل گئی؟‘‘

میں کیا عرض کروں مجھے اس سوال سے اب کیسی کوفت ہو رہی تھی اور اب معلوم ہوا کہ کسی نے سچ کہا ہے، نہ ہر جائے مرکب تواں ناختن۔ مجھے کوفت ہو رہی تھی کیونکہ چھت والے کمرے میں بجلی کی روشنی غائب تھی، یعنی یہ کہ کمرے والی غالباً نہیں بلکہ قطعی، غیر حاضر تھیں۔ چنانچہ بجائے جواب دینے کے میں نے دل میں سوچا کہ شاید اپنے ماموں کے یہاں گئی ہوں گی۔

اسی دوران میں چھوٹی سالی صاحبہ بل کھا کر لجاتی ہوئی آئیں۔ میں اس وقت بیان نہیں کر سکتا کہ کیسی الجھن میں تھا۔ خوش دامن دنیا بھر کی باتیں تو کر رہی تھیں، مگر یہ نہ بتاتی تھیں کہ ہماری بیوی صاحبہ کہاں ہیں۔ ماموں کے یہاں یا گھر میں۔ شکر ہے خدا کا چھوٹی سالی کے سلسلے میں اتنا تو معلوم ہو گیا کہ خیر سے گھر پر نہیں ہیں۔ بڑی بی بولیں، ’’دونوں گئی تھیں، یہ تو سرشام لوٹ آئی اور اس نے کھانا کھا کر آنے کو کہا تھا، مگر رہ گئی۔ بہن نے پکڑ لیا ہوگا، اللہ رکھے دونوں میں بڑی محبت ہے، اکثر بلا بھیجتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر بڑی بی نے تو ماموں زاد بہن کی محبت کا سمع خراش قصہ بیان کرنا شروع کیا اور ادھر میں نے منہ بنایا اور لاپرواہی سے جمائیاں لینی شروع کیں۔ کیونکہ بیوی سے اس قسم کی محبت کرنے والوں سے مجھے سخت نفرت ہے۔ شکر ہے کہ میرا مطلب بڑی بی سمجھ گئیں اور کہنے لگیں، ’’لو اب تم سو رہو۔‘‘

میں تھکے ہوئے پیروں سے اندھیرے میں غیر دلچسپی کے ساتھ زینہ پر چڑھا۔ چھت پر پہنچتے ہی بتی روشن کی۔ ملازمہ کمبخت نے میرا بستر جوں کا توں پلنگ پر رکھ دیا تھا۔ میں نے کھول کر بچھایا۔ بتی گل کردی اور لیٹ رہا۔ بہت جلد سوگیا۔ آخری شب کا پہلا حصہ اور گرمیوں کی ٹھنڈی ہوا میں متوالی نیند! لیکن کچھ آہٹ، کچھ گرمی اور کچھ خوشبو اس نیند کو بھی غائب کر سکتی ہے۔ میں بجلی کی روشنی میں کھڑبڑا کر اٹھا، ’’کون؟‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ جواب دینے والی مسکرا رہی تھی۔ وہ میری موجودگی پر اور میں اس کی موجودگی پر۔ غلطی میری تھی، کمرے کے دوسرے بازو کے سامنے ہی تو چارپائی پڑی تھی۔ میں نے نہ دیکھی۔ نہ سلام نہ دعا۔ ’’یہ ہاتھ میں آپ کے کیا ہوا، پٹی کیسی بندھی ہے؟‘‘

انا للہ و انا الیہ راجعون، بھلا کیا جواب دیتا۔ سوائے اس کے کہ میں نے کہا، بحیر تم کہ عجب تیر بے کماں زدئی۔ اور اسی وقت سے طے کر لیا ہے کہ اب پٹی کبھی نہ باندھوں گا۔ خدا اس ارادے کی شرم رکھے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.