پڑ گئی دل میں ترے تشریف فرمانے میں دھوم
پڑ گئی دل میں ترے تشریف فرمانے میں دھوم
باغ میں مچتی ہے جیسے فصل گل آنے میں دھوم
تیری آنکھوں نے نشے میں اس طرح مارا ہے جوش
ڈالتے ہیں جس طرح بد مست مے خانہ میں دھوم
چاند کے پرتو سے جوں پانی میں ہو جلوے کا حشر
تیرے منہ کے عکس نے ڈالی ہے پیمانے میں دھوم
ابر جیسے مست کو شورش میں لاوے دل کے بیچ
مچ گئی اک بار ان بالوں کے کھل جانے میں دھوم
بوئے مے آتی ہے منہ سے جوں کلی سے بوئے گل
کیوں یقیںؔ سے جان کرتے ہو مکر جانے میں دھوم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |