پکارتی ہے خموشی مری فغاں کی طرح
پکارتی ہے خموشی مری فغاں کی طرح
نگاہیں کہتی ہیں سب راز دل زباں کی طرح
بگڑ گئی ہے یہاں بے طرح جہاں کی طرح
کہاں کی وضع کہاں کی ادا کہاں کی طرح
چھڑا دے قید سے اے برق ہم اسیروں کو
لگا دے آگ قفس کو بھی آشیاں کی طرح
کبھی تو صلح بھی ہو جائے زہد و مستی میں
الٰہی شیخ بھی مے خوار ہو مغاں کی طرح
جلا کے داغ محبت نے دل کو خاک کیا
بہار آئی مرے باغ میں خزاں کی طرح
حیا نے روک لیا جذب دل نے کھینچ لیا
چلے وہ تیر کی صورت کھنچی کماں کی طرح
تلاش یار میں چھوڑی نہ سرزمیں کوئی
ہمارے پاؤں میں چکر ہے آسماں کی طرح
جو سمجھے خضر تو قول شہید الفت کو
گرہ میں باندھ رکھے عمر جاوداں کی طرح
سنے جو حضرت زاہد سے وصف جنت کے
تو صاف پھر گئی آنکھوں میں اس مکاں کی طرح
جھکی ہی جاتی ہے کچھ خودبخود حیا سے وہ آنکھ
گری ہی پڑتی ہے بیمار ناتواں کی طرح
یہ سد راہ ہوا کس کا پاس رسوائی
رکے ہوئے ہیں مرے اشک کارواں کی طرح
ادائے مطلب دل ہم سے سیکھ جائے کوئی
انہیں سنا ہی دیا حال داستاں کی طرح
مزے ہیں اس دہن زخم کے لیے کیا کیا
جو چوسے تیر کے پیکان کو زباں کی طرح
سمجھ کے کیجیے برباد میرا مشت غبار
یہ لے نہ آئے کوئی چکر آسماں کی طرح
یہ دل ہے آپ کا گھر رہئے شوق سے لیکن
شکیب و راحت و صبر و قرار جاں کی طرح
قیامت آئی شب وصل میرے گھر کے پاس
رقیب نے اسے آواز دی اذاں کی طرح
شب اس کی بزم میں تھا شمع پر بھی رشک ہمیں
کہ منہ میں شعلے کو گلگیر لے زباں کی طرح
مجھے یہ حکم ہے زنہار تم نہ کرنا عشق
نصیحتیں بھی وہ کرتے ہیں امتحاں کی طرح
ہم اپنے ضعف کے صدقے بٹھا دیا ایسا
ہلے نہ در سے ترے سنگ آستاں کی طرح
کچھ ان سے کہنے کو بیٹھے تھے ہم کہ خلوت میں
رقیب آ ہی گیا مرگ ناگہاں کی طرح
شکستہ بال ہوں وہ مرغ ناتواں و ضعیف
کہ میں تو میں نہ اڑے میرے آشیاں کی طرح
نہ ہوں گے سوز محبت کے دل جلے ٹھنڈے
بھری ہے آتش غم مغز استخواں کی طرح
نہ چھوڑ صید محبت کو خاک پر صیاد
اسے بھی ڈال لے تو دوش پر کماں کی طرح
زبان خار ہوئی تر ہماری وحشت سے
کہ چھالے پھوٹے بھی چشم خوں فشاں کی طرح
خدا قبول کرے داغؔ تم جو سوئے عدم
چلے ہو عشق بتاں لے کے ارمغاں کی طرح
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |