پکڑی کسی سے جاوے نسیم اور صبا بندھے
پکڑی کسی سے جاوے نسیم اور صبا بندھے
مولیٰ کرے کچھ اپنی بھی اب تو ہوا بندھے
عاشق کو بوغ بند میں باندھا ہے اس نے یوں
تا ہو کے دست بقچہ میں جیسے قبا بندھے
یوں دود آہ کا مری گنبد بندھا ہے یاں
چھت جیسے ابر تیرہ کی تحت السما بندھے
ٹک عالم اے جنوں تو دکھا وہ کہ جس سے صاف
لاہوت کا سماں مری آنکھوں میں آ بندھے
سرما گھلا کے آنکھوں میں نکلا نہ کیجئے
ایسا نہ ہو کہ آپ پہ کچھ توتیا بندھے
قدرت خدا کے دیکھو کہ چوری تو ہم کریں
اور الٹے دست گیر ہو دزد حنا بندھے
الجھیڑے میں پھنسے تھے تری زلف کے سو وہ
الٹے ٹنگے اسیر ہوئے بارہا بندھے
انشاؔ صد آفریں ترے ذہن سلیم کو
مضموں زیادہ اس سے بھلا اور کیا بندھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |