پھرا پیامبر اپنا خراب رستے میں
پھرا پیامبر اپنا خراب رستے میں
دیا نصیب نے اچھا جواب رستے میں
یہ سچ ہے راہ محبت بڑی ہے ٹیڑھی کھیر
نہ آئے خضر کبھی اس خراب رستے میں
بھٹکتے پھرتے ہیں اس رہ گزار میں عاشق
مسافروں کی ہے مٹی خراب رستے میں
گلی سے یار کی ہم اٹھ کے چل چکے تھے مگر
مچل گیا دل پر اضطراب رستے میں
وہ رستہ کاٹ کے چلتے ہیں اس لئے مجھ سے
کہ کچھ کہے نہ یہ خانہ خراب رستے میں
بغل میں داب کے لے چل عدم کو شیشۂ مے
ملے گی داغؔ نہ تجھ کو شراب رستے میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |