پھرا کسی کا الٰہی کسی سے یار نہ ہو

پھرا کسی کا الٰہی کسی سے یار نہ ہو
by عیش دہلوی

پھرا کسی کا الٰہی کسی سے یار نہ ہو
کوئی جہان میں برگشتہ روزگار نہ ہو

ہم اس کی چشم سیہ مست کے ہیں مستانے
یہ وہ نشے ہیں کہ جس کا کبھی اتار نہ ہو

جہان میں کوئی کہتا نہیں خدا لگتی
وہ کیا کرے جسے دل پر بھی اختیار نہ ہو

نہ پھاڑے دامن صحرا کو کیوں کہ دست جنوں
رہا جب اپنے گریباں میں ایک تار نہ ہو

نہ کھیل جان پر اپنی تو اے دل ناداں
خدا کو یاد کر اتنا تو بے قرار نہ ہو

نہ بھول زہد پہ لذت سے بخشش حق کی
وہ بے نصیب ہے جب تک گناہ گار نہ ہو

تمہارے سر کی قسم کھا کے درد دل کا کہوں
جو میرے لکھنے کا یوں تم کو اعتبار نہ ہو

جناب شیخ جی صاحب میں ایک عرض کروں
اگر مزاج مقدس پہ ناگوار نہ ہو

جناب رندوں سے ملتے تو ہیں پہ ڈر ہے مجھے
کہ دشمنوں کا کسی دن وہاں اچار نہ ہو

بہت ہے خیمۂ گردوں کے پھونکنے کو تو عیشؔ
اس آہ تفتہ جگر میں اثر ہزار نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse