پھر اس طرف وہ پری رو جھمکتا آتا ہے

پھر اس طرف وہ پری رو جھمکتا آتا ہے
by نظیر اکبر آبادی
315885پھر اس طرف وہ پری رو جھمکتا آتا ہےنظیر اکبر آبادی

پھر اس طرف وہ پری رو جھمکتا آتا ہے
برنگ مہر عجب کچھ چمکتا آتا ہے

ادھر ادھر جو نظر ہے تو اس لیے یارو
جو ڈھب سے تاکتے ہیں ان کو تکتا آتا ہے

کوئی جو راہ میں کہتا ہے دل کی بے تابی
تو اس سے کہتا ہے کیا تو یہ بکتا آتا ہے

ملاپ کرنا ہے جس سے تو اس کی جانب واہ
قدم اٹھاتا ہے جلد اور ہمکتا آتا ہے

ہمارے دل کی جو آتش ہے دینی پھر بھڑکا
جبھی نظیرؔ وہ پلکیں جھپکتا آتا ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.