پھر اس کے پھندے میں جا رہے ہیں کہ جس کے پھندے میں جا چکے تھے

پھر اس کے پھندے میں جا رہے ہیں کہ جس کے پھندے میں جا چکے تھے
by نسیم دہلوی

پھر اس کے پھندے میں جا رہے ہیں کہ جس کے پھندے میں جا چکے تھے
وہی مصیبت اٹھا رہے ہیں کہ جو مصیبت اٹھا چکے تھے

کہو جو بے جا بجا ہے مجھ کو سزا ہے جو ناسزا ہے مجھ کو
کہ ان کا رونا پڑا ہے مجھ کو جو مدتوں تک رلا چکے تھے

جو ان کی خو تھی سو ان کی خو ہے جو گفتگو تھی سو گفتگو ہے
پھر ان پہ مٹنے کی آرزو ہے جو ہر طرح سے مٹا چکے تھے

عدو کا میں ہوں عدو مقرر برابر آ کے ہوئے برابر
بھلا بدلتا نہ رنگ کیوں کر وہ رنگ اپنے جما چکے تھے

کسی سے کوئی نہ دل لگائے نسیمؔ کیا کیفیت بتائے
وہی اب آنسو بہانے آئے لہو جو میرا بہا چکے تھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse