پھر دیکھتے عیش آدمی کا

پھر دیکھتے عیش آدمی کا
by داغ دہلوی

پھر دیکھتے عیش آدمی کا
بنتا جو فلک مری خوشی کا

گلشن میں ترے لبوں نے گویا
رس چوس لیا کلی کلی کا

تیرا بھی تو حسن ہے دغاباز
ہوتا ہی نہیں کوئی کسی کا

اتنی ہی تو بس کسر ہے تم میں
کہنا نہیں مانتے کسی کا

ہم بزم میں ان کی چپکے بیٹھے
منہ دیکھتے ہیں ہر آدمی کا

تم کوچہ غیر میں نہ جانا
اس راہ میں ہے گزر کسی کا

کس کس نے لئے ہیں تیرے بوسے
ہے لعل نمک فشاں جو پھیکا

جو دم ہے وہ ہے بسا غنیمت
سارہ سودا ہے جیتے جی کا

آغاز کو کون پوچھتا ہے
انجام اچھا ہو آدمی کا

روکیں انہیں کیا کہ ہے غنیمت
آنا جانا کبھی کبھی کا

کہتے ہیں اسے زبان اردو
جس میں نہ ہو رنگ فارسی کا

ایسے سے جو داغؔ نے نباہی
سچ ہے کہ یہ کام تھا اسی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse