پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
by مرزا غالب

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل، جگر تشنۂ فریاد آیا

دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا

سادگی ہائے تمنا، یعنی
پھر وہ نیرنگِ نظر یاد آیا

عذرِ واماندگی، اے حسرتِ دل!
نالہ کرتا تھا، جگر یاد آیا

زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا

کیا ہی رضواں سے لڑائی ہو گی
گھر ترا خلد میں گر یاد آیا

آہ وہ جرأتِ فریاد کہاں
دل سے تنگ آ کے جگر یاد آیا

پھر تیرے کوچے کو جاتا ہے خیال
دلِ گم گشتہ، مگر، یاد آیا

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse