پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والے

پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والے
by آرزو لکھنوی
318293پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والےآرزو لکھنوی

پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والے
جھوٹا ہی وعدہ کر لے سچی زبان والے

موجود دل جگر ہیں دے ابروؤں کو جنبش
دہرہ نشانہ بھی ہے دوہری کمان والے

یہ چپکے چپکے باتیں نظریں بچا بچا کر
رکھتے ہیں آنکھ ہم بھی ہم بھی ہیں کان والے

کہنا پتے پتے کی اور نام پھر ہنسی کا
چھریاں نہ بھونک دل میں میٹھی زبان والے

وہ آرزوؔ سر اپنا ٹکرا رہا ہے در سے
نیچے تو دیکھ جھک کر اونچے مکان والے


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.