پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والے

پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والے
by آرزو لکھنوی

پھر چاہے تو نہ آنا او آن بان والے
جھوٹا ہی وعدہ کر لے سچی زبان والے

موجود دل جگر ہیں دے ابروؤں کو جنبش
دہرہ نشانہ بھی ہے دوہری کمان والے

یہ چپکے چپکے باتیں نظریں بچا بچا کر
رکھتے ہیں آنکھ ہم بھی ہم بھی ہیں کان والے

کہنا پتے پتے کی اور نام پھر ہنسی کا
چھریاں نہ بھونک دل میں میٹھی زبان والے

وہ آرزوؔ سر اپنا ٹکرا رہا ہے در سے
نیچے تو دیکھ جھک کر اونچے مکان والے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse