پھوٹی بھلی وہ آنکھ جو آنسو سے تر نہیں
پھوٹی بھلی وہ آنکھ جو آنسو سے تر نہیں
کس کام ہے وہ سیپ کہ جس میں گہر نہیں
منعم ہے کیا کہ جس سے کوئی بہرہ ور نہیں
کس کام کا وہ نخل کہ جس میں ثمر نہیں
بندہ ہوں بے خودی کا میں اس مست کی جسے
آشوب روز حشر سے اصلاً خبر نہیں
یارب خلش سے آہ کی ہو جو نہ بہرہ مند
جس دل کا تکیہ گاہ سر نیشتر نہیں
اے دل برنگ غنچہ نہ مل گل رخوں سے تو
اپنی گرہ میں ان کے کھلانے کو زر نہیں
ساقی ہے شب کی دست درازی کا کیا گلہ
پیارے جو بے خودی میں ہوا معتبر نہیں
نالاں نہ ہوں گلی میں تری میں تو کیا کروں
مرغ چمن میں نالہ سوا کچھ ہنر نہیں
جوں اشک ایک لغزش پا میں گئے ہیں پار
ہستی سے تا بہ نیستی چنداں سفر نہیں
قائمؔ جو اس طرح تو پھرے ہے خراب و خوار
اے خانماں خراب مگر تیرے گھر نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |