پھٹا پڑتا ہے جوبن اور جوش نوجوانی ہے
پھٹا پڑتا ہے جوبن اور جوش نوجوانی ہے
وہ اب تو خودبخود جامے سے باہر ہوتے جاتے ہیں
نظر ہوتی ہے جتنی ان کو اپنے حسن صورت پر
ستم گر بے مروت کینہ پرور ہوتے جاتے ہیں
بھلا اس حسن زیبائی کا ان کے کیا ٹھکانا ہے
کہ جتنے عیب ہیں دنیا میں زیور ہوتے جاتے ہیں
ابھی ہے تازہ تازہ شوق خود بینی ابھی کیا ہے
ابھی وہ خیر سے نخوت کے خوگر ہوتے جاتے ہیں
وہ یوں بھی ماہ طلعت ہیں مگر شوخی قیامت ہے
کہ جتنے بد مزہ ہوتے ہیں خوشتر ہوتے جاتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |