پہلے صف عشاق میں میرا ہی لہو چاٹ

پہلے صف عشاق میں میرا ہی لہو چاٹ
by ولی اللہ محب

پہلے صف عشاق میں میرا ہی لہو چاٹ
شمشیر نگہ تیری نے کیا کیا نہ کیا کاٹ

گلشن میں ہنسی دیکھ کے اس گل کی یکایک
حسرت سے گئے غنچوں کے یک لخت جگر پھاٹ

اتنا بھی دیا صبر نہ اس نفس دنی کو
کتے کی طرح بیٹھتا قسمت کا دیا چاٹ

دھلوائیے کیا جامۂ عصیاں کو بساؤ
چل کوچ میں دریا کے کنارے ہیں کھڑے گھاٹ

ہو غلۂ خلقت سے نہ سودائے محبت
ہے عشق کی دکان سو بنئے کی نہیں ہاٹ

اک پشم نظر ان کی میں ہے شال دوشالہ
جو بیٹھے بچھا بوریا اور اوڑھ لیا ٹاٹ

ستر دو بہتر ہیں طریق ان سے علاحدہ
ہے عشق کی منزل کی جدی راہ جدی باٹ

عشقیہ کہے شعر و یا مدح و مناقب
عالم کا بنواڑا کہے شاعر نہیں ہے بھاٹ

تب رفع خلش ہوئے میاں دل سے محبؔ کے
کہتے ہیں سو تجھ سے کہے دل کھول کے دکھ باٹ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse