پیامِ عشق

پیامِ عشق (1924)
by محمد اقبال
295947پیامِ عشق1924محمد اقبال

سُن اے طلب گارِ دردِ پہلو! میں ناز ہُوں، تُو نیاز ہو جا
میں غزنوی سومناتِ دل کا ہوں تُو سراپا ایاز ہو جا

نہیں ہے وابستہ زیرِ گردُوں کمال شانِ سکندری سے
تمام ساماں ہے تیرے سینے میں، تُو بھی آئینہ ساز ہو جا

غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا
جہاں کا فرضِ قدیم ہے تُو، ادا مثالِ نماز ہو جا

نہ ہو قناعت شعار گُلچیں! اسی سے قائم ہے شان تیری
وفورِ گُل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا

گئے وہ ایّام، اب زمانہ نہیں ہے صحرانوَردیوں کا
جہاں میں مانندِ شمعِ سوزاں میانِ محفل گداز ہو جا

وُجود افراد کا مجازی ہے، ہستیِ قوم ہے حقیقی
فِدا ہو مِلّت پہ یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا

یہ ہند کے فرقہ ساز اقبالؔ آزری کر رہے ہیں گویا
بچا کے دامن بُتوں سے اپنا غُبارِ راہِ حجاز ہو جا


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.