پیام آزادی
مقام حق ہے بلا شک مقام آزادی
بلند عرش سے بھی کچھ ہے بام آزادی
نہ ہو سکے گا کبھی محترم جہاں میں تو
جو تیرے دل میں نہیں احترام آزادی
سنا رہا ہے تجھے انقلاب دہر جو کچھ
سن اور غور سے سن وہ پیام آزادی
کہاں تلک یہ تباہی کی زندگی غافل
اٹھ اور جلد بنا اک نظام آزادی
اٹھ اور ہاتھ میں لے تیغ بے نیام عمل
کہ ہے وسیلۂ فوز و مرام آزادی
یہ زندگی ہے تری موت سے سوا بد تر
خدا کے واسطے کر اہتمام آزادی
غلط ہے یہ جو غلامانہ ذہنیت کے ساتھ
پکا رہا ہے تو سودائے خام آزادی
پکار یوں تری ہرگز سنی نہ جائے گی
زبان تیغ سے کر بس کلام آزادی
وطن سے لعنت سرمایہ کو فنا کر دے
جو چاہتا ہے بقائے دوام آزادی
ہٹا دے پردۂ تاریک جبر و استبداد
کہ نور بار ہو ماہ تمام آزادی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |