پیری میں بھلا ڈھونڈھئے کیا بخت جواں کو
پیری میں بھلا ڈھونڈھئے کیا بخت جواں کو
اب قطع محبت ہی ہوئی جسم سے جاں کو
موقوف کر اس بزم میں یہ چرب زبانی
اے شمع تو کٹوائے ہے کیوں اپنی زباں کو
بے نام و نشانی ہی بڑا نام و نشاں ہے
کیا نام و نشاں چاہئے بے نام و نشاں کو
اس منزل ہستی میں ٹھہرتا نہیں کوئی
کیا جانے کہ یہ قافلہ جاتا ہے کہاں کو
انسان تو ہے صورت حق کعبے میں کیا ہے
اے شیخ بھلا کیوں نہ کروں سجدے بتاں کو
ؔجوشش گل مضمون چمن طبع کا تیرے
دیکھے نہ کبھی تا بہ ابد روئے خزاں کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |