پیری میں شوق حوصلہ فرسا نہیں رہا
پیری میں شوق حوصلہ فرسا نہیں رہا
وہ دل نہیں رہا وہ زمانہ نہیں رہا
کیا ذکر مہر اس کی نظر میں ہے دل وہ خوار
شایان جور و ظلم دل آرا نہیں رہا
جھگڑا مٹا دیا بت کافر نے دین کا
اب کچھ خلاف مومن و ترسا نہیں رہا
عشاق و بوالہوس میں نہیں کرتے وہ تمیز
واں امتیاز نیک و بد اصلا نہیں رہا
کیوں بہر سیر آنے لگے گل رخان دہر
پیری میں دل سزائے تماشا نہیں رہا
کہہ دو کہ قبر نعش بھی کی اس کی پائمال
نام و نشان عاشق رسوا نہیں رہا
اب تک یہاں ہے عجز و نیاز و وفا کی دھوم
واں لطف و التفات و مدارا نہیں رہا
کشتی بغیر دشت نوردی ہو کس طرح
اشکوں سے بحر ہو گیا صحرا نہیں رہا
مستی میں رات وہ نہ کھلے مجھ سے ہم نشیں
کچھ اعتبار نشۂ صہبا نہیں رہا
کیوں جائیں پھر کے کعبے سے نساخؔ دیر کو
وہ سر نہیں رہا وہ سودا نہیں رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |