پیک خیال بھی ہے عجب کیا جہاں نما
پیک خیال بھی ہے عجب کیا جہاں نما
آیا نظر وہ پاس جو اپنے سے دور تھا
اس ماہرو پہ آنکھ کسی کی نہ پڑ سکی
جلوہ تھا طور کا کہ سراسر وہ نور تھا
دیتے نہ دل جو تم کو تو کیوں بنتی جان پر
کچھ آپ کی خطا نہ تھی اپنا قصور تھا
ذرہ کی طرح خاک میں پامال ہو گئے
وہ جن کا آسماں پہ سر پر غرور تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |