پی ہم نے بہت شراب توبہ
پی ہم نے بہت شراب توبہ
اے گرمیٔ آفتاب توبہ
عالم کا یہ انقلاب توبہ
ذرے ہوئے آفتاب توبہ
جس وقت تسلیاں کوئی دے
اس وقت کا اضطراب توبہ
آنکھیں جنہیں دیکھ کر ہوں بیمار
وہ نرگس نیم خواب توبہ
کیا مستانہ ہر ادا ہے
کس جوش پہ ہے شباب توبہ
کر دوں گا ہزار میں انہیں بند
باتوں کا مری جواب توبہ
ہر روز ہی اک نیا ستم ہے
ہر وقت ہے اک عتاب توبہ
ساقی ترے دور میں کسی کی
ہوتی بھی ہے مستجاب توبہ
آنکھیں شب وصل بھی جھکی ہیں
خلوت میں بھی یہ حجاب توبہ
کرتا ہے شراب محتسب بند
یہ بھی ہے کوئی ثواب توبہ
پیری میں حفیظؔ مے پرستی
اب کیجئے اے جناب توبہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |