چار بیٹیاں

319509چار بیٹیاںناصر نذیر فراق دہلوی

حسین بیگ قندھاری ہمایوں کی فوج میں داخل ہوکر ہندوستان میں آیا، اور خاک دامن گیر نے اس کو قندھار جانے نہ دیا۔ اپنے دیس میں بھی وہ کھیتی باڑی کرتا تھا، اور یہاں آکر بھی اس نے ہتیار کھول ہل بیل لے لئے۔ رتن پور ضلع بلند شہر میں چار بیگھہ زمین مول لے کر اپنے پرانے دھندہ میں لگ گیا اور ربیع خریف دونوں فصلو ں میں کئی سو من اناج پیدا کر لیتا۔ نوجوان تھا، اس لئے گاؤں کی ایک عورت سے اس نے نکاح کر لیا، جس کا نام لطف النسا تھا۔لطف النساء کے پیٹ سے حسین بیگ کے گھر میں چار برس کے اندر چار لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ باپ ولایتی مغل، چاروں کی چاروں لڑکیاں قندھاری انارکی طرح سرخ رنگ اور خوبصورت ہوئیں۔ مغل نے بڑی کا نام شاہ بانو، دوسری کا جاہ بانو، تیسری کا نام شمشاد بانو، اور چوتھی کا سرو آزاد بانو رکھا۔ مگر ان لڑکیوں کی بدقسمتی دیکھئے۔ چوتھی لڑکی کا دودھ بھی چھٹنے نہ پایا تھا کہ حسین بیگ قولنج میں مبتلا ہوکر مر گیا، اور لطف النساء رانڈ ہو گئی، اور اسے لڑکیوں کا پالنا بھی دوبھر ہو گیا۔ زمین بک گئی او رلطف النساء اور اس کی بچیاں دانہ دانہ کو محتاج ہو گئیں۔ ایک بڑی مصیبت یہ تھی کہ لطف النساء جوع الکلب کی بیماری میں مبتلا تھی، جسے ہندی میں ہو کا کہتے ہیں۔ جتنا کھاتی، اتنی ہی بھوکی رہتی۔ کھاتے کھاتے تھک جاتی تو اپنے دل سے کہتی۔ دھیرا رہ چرا کھاؤں گی۔گاؤں کے رہنے والے اکثر بیٹیو ں کو منحوس سمجھتے تھے۔ خواہ ہندو تھے یا مسلمان۔ اس لئے بہت لوگ لطف النساء سے کہتے، لڑکی پرایا دھن کہلاتی ہے اور کنبہ اور قبیلہ اور گاؤں اور محلہ کی ناک کاٹتی ہے۔ اس کو تو جس دن جنم لے اسی دن چلتا کردو۔ یہ چاروں بڑی بھنڈپڑی ہیں۔ اپنے باپ کو کھاگئیں۔ نوجوان ہونے سے پہلے پہلے ایک ایک کو چپکے چپکے زہر دے کر مار ڈال۔ آج کل اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔ ہمایوں جگ کا ٹ کر پردیس سے مارا دھاڑا آیا ہے۔ اسے ابھی اپنے تن بدن کا ہوش نہیں ہے۔ پرائے خون کی کیا چھان بین کرےگا اور اگر کرےگا تو ہوگا کیا۔ کنیاں کا مار دینا بڑا پُن ہے۔ سارا گاؤں ایک منہ ہوکر تھانہ دار سے کہہ دے گا، لڑکیاں دکھ بیماری میں مری ہیں۔لطف النساء لوگوں کے بہکائے سکھائے میں آ گئی۔ اس نے کئی بار چاہا کہ اپنی لڑکیوں کا کام تمام کردے۔ مگر جسے خدا رکھے اسے کون چکھے۔ اس گناہ کی اسے ہمت نہ ہوئی۔ اور لیت و لعل میں بڑی لڑکی چودہ برس کی ہو گئی۔ ان لڑکیوں کو بر بھی نہ ملتا تھا۔ کیونکہ لطف النساء اور مغل کو گاؤں والے کم ذات سمجھتے تھے۔ جب لڑکیاں لطف النساء کے گلے کو آ گئیں تو مرتا کیا نہ کرتا، اس نے لڑکیوں کو مار ڈالنے کی دل میں ٹھان لی۔ اور ایک دن صبح ہی ان چاروں کو لے کر بیر کھلانے کے بہانے سے جنگل کو گئی۔ اور اس دھیان میں پڑی کہ کسی کنوئیں یا تالاب میں چاروں کو ایک دم سے دھکیل دوں۔ وہ اس سڑک کو جو رتن پور ہوکر دلی کو گئی ہے، کاٹ کر ادھر جانا چاہتی تھی جو بیچ میں ایک مردانی پینس حائل ہو گئی، جس میں ایک امیر زادہ نوجوان خوبصورت سوار تھا۔ دس سوار پینس کے آگے۔ اور دس سوار ہتیار بند اس کے پیچھے تھے۔لطف النسا اور چاروں لڑکیاں پینس کے پاس پہنچ گئیں تھیں۔ اس لئے اس نوجوان نے ان سب کو اچھی طرح دیکھا اور خاص طور پر اس کی آنکھ شاہ بانو پر پڑی، جس کی رسیلی آنکھوں کی گردش نے بتایا کہ وہ وقت قریب آ لگا ہے کہ جوانی کے کنول پر ارمانوں کے بھونرے واری قربان ہونے لگیں۔ پالکی نشین نے بیتاب ہوکر دستک دی اور پینس زمین پر رکھ دی گئی۔ سوار مالک کا اشارہ پاکر دس قدم آگے بڑھ گئے۔پنیس والا سردار (لطف النساء سے مخاطب ہوکر) مائی تم کون ہو، او ریہ لڑکیاں تمہاری کون ہیں۔لطف النساء، دولہ، یہ بندی حسین بیگ قندھاری کی رانڈ ہے۔ یہ میری بیٹیاں حسین بیگ قندھاری کی بیٹیاں ہیں۔ جانہار مرگیا۔ میری مانگ کو آگ لگا گیا۔ اور چاروں کو یتیم کر گیا۔ اب گاؤں والے مجھ پر زور دیتے ہیں کہ ان چاروں کو مار ڈال۔ نہیں تو ہمارے گاؤں سے نکل جا۔ اس لئے ان کو لے کر اس واسطے نکلی ہوں کہ کسی تالاب یا کنوئیں میں ڈبو دوں۔ یہ کہہ کر لطف النساء زار زار رونے لگی۔سردار میں بھی قندھاری مغل ہوں۔ اور بادشاہ کے ساتھ دلی آیا ہوں۔ مرتضیٰ بیگ میرا نام ہے۔ بادشاہی کام بجا لاتا ہوں۔ لو یہ پانچ سو روپیہ ہیں۔ انہیں لے کر اپنے گھر جاؤ اور اطمینان سے رہو۔ تینوں لڑکیوں کو پالو پوسو اور چوتھی کو میں اپنے ساتھ لئے جاتا ہوں۔ تم جاننا کہ ایک کنوئیں میں ڈبو آئی۔ یہ کہہ کر مرتضیٰ بیگ نے پینس کے گبھہ کے نیچے سے تھیلی نکال پانچ سو روپیہ توری کے سے پھول جیسے گن لطف النساء کے حوالہ کئے اور پینس سے باہر آ، شاہ بانو کو پینس میں بٹھا، پینس کے کیواڑ بھیڑ دیے اور خود کو تل گھوڑے پر سوار ہو گیا اور چلتے چلتے لطف النساء سے کہتا گیا، جب تمہارا جی چاہے اپنی بیٹی سے ملنے کے لئے دہلی آ جانا۔ آغا مرتضیٰ بیگ مصاحب بادشاہ سلامت کی محل سرا پوچھ لینا۔ یہ لوگ چند منٹ میں لطف النساء کی نظر سے اوجھل ہو گئے اور لطف النساء روپیہ اور تینوں لڑکیوں کو لے کر رتن پور کو مڑی۔(۲)برس دن ہولیا ہے اور جاہ بانو چودہویں میں پڑی ہے۔ اس کی جوانی، اس کا اٹھان، چڑھتے چاند کے زور شور کو مات دیتا ہے۔ وہی رتن پور کی پکی سڑک ہے جو دلی کو گئی ہے اور وہی جگہ ہے، جہاں لطف النساء شاہ بانو کو لئے کھڑی تھی۔ آج وہ جاہ بانو کو بیر کھلانے کے بہانہ سے یہاں تک لائی ہے اور چھوٹی دونوں لڑکیاں بھی ساتھ ہیں، ان سب کے لانے کی وجہ وہی اس کی بدنیتی ہے کہ کنوئیں میں دھکا دے دے، جو ایک قافلہ سڑک سے گزرا اور قافلہ سالار جاہ بانو کو دیکھ کر لوٹ ہو گیا۔ لطف النساء نے قافلہ سالار کو وہی پھپٹر دلالے دکھائے جو مرتضی بیگ کو دکھائے تھے۔ اور تین سو روپے اس سے لے اور جاہ بانو کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے رتن پور چلی آئی۔ قافلہ سالارنے روانی کے وقت لطف النساء سے کہا، میا کبھی تمہارا دل اپنی لڑکی کے دیکھنے کو چاہے تو دلی آکر سوداگروں کے محلہ میں عبد الغفور سوداگر شیرازی کا گھر پوچھ لینا۔ میں مل جاؤں گا۔اور اسی طرح تیسرے برس لطف النسا نے شمشاد بانو کا سودا ایک بادشاہی باورچی سے دو سو روپیہ میں رتن پور کی سڑک پر کر لیا، جو دلی کا رہنے والا حسین بخش کہلاتا تھا۔ اور چوتھے سال میں سردار بانو سو روپیہ کے عوض عزت حسین نام بادشاہی گندہی کے حوالہ کی اور نچنت ہوکر رتن پور میں رہنے لگی اور گاؤں میں جو نعمتیں ملتی ہیں وہ مول لے کر کھاتی۔ مگر اس کا پیٹ نہ پہلے بھرا تھا نہ اب بھر سکتا تھا۔ یہاں تک کہ جو کچھ نقد پاس تھا، وہ سب چٹورپن میں اڑا دیا اور فاقوں کی نوبت آ گئی۔ ایک درزی سے برقعہ سلوا لیا اور لڑکیوں سے ملنے کے واسطے دلی چل دی۔ اور تیسرے دن شہر میں پہنچ گئی۔ ڈولی میں بیٹھ ڈولی بانوں کو مرتضی ٰ بیگ مصاحب کا پتہ بتا دیا اور وہ لطف النسا کو ٹھیک پتہ پر لے پہنچے۔دیوان خانہ، محل سرا، اور ہاتھی، گھوڑے دکھائی دیے۔ ڈولی کہاروں نے دیوان خانہ کے صحن میں رکھ کر ایک مہری سے، جو محل سرا میں جارہی تھی اندر اطلاع کروائی کی رتن پور سے سواریاں آئی ہیں۔ مرتضیٰ بیگ حویلی میں تھا۔ رتن پور کا نام سنتے ہی دروازہ پر آیا۔ ڈولی ڈیوڑھی پر رکھی گئی۔ شاہ بانو دوڑی آئی۔ ماں کو اتار کر حویلی میں لے گئی۔ دونوں مل کر روئیں دھوئیں۔ مرتضیٰ بیگ نے شاہ بانو سے کہا، ’’بیگم تم نواب وزیر کے ہاں اکیلی بیاہ میں جانے سے گھبراتی تھیں، ہماری تمہاری خوش قسمتی سے خدا نے اماں جان کو بھیج دیا۔ اب انہیں ساتھ لو، اور شام کو نواب وزیر کے ہاں چلی جاؤ۔‘‘لطف النساء بیٹی کو سچ مچ شاہ بانو بنا دیکھ کر پھولی نہ سمائی۔ سونے میں پیلی اور موتیوں میں سفید ہورہی تھی۔ لونڈیاں، خواصیں خدمت میں حاضر تھیں۔ مرتضیٰ بیگ مردانہ میں چلا گیا۔ شاہ بانو ماں کو ایک کمرہ میں لے گئی۔ لونڈیوں نے دسترخوان پر کھانا چن دیا اور لطف النسا کھانے میں مشغول ہوئی اور شاہ بانو نے الماری کھول کر شیشہ کا مرتبان نکالا اور اس میں سے آم کا مربہ نکال کر طشتری میں لطف النساء کے سامنے رکھا۔لطف النسا نے بہت رغبت سے کھایا۔ اور چپکے سے کہا، ’’دھیرا رہ چرا کھاؤں گی۔‘‘دن کے تین بجے لطف النساء کو لونڈیاں حمام میں لے گئیں، اور نہلا دھلا کرمناسب کپڑے پہنا لائیں۔ شاہ بانونے چار بجے تک بناؤ سنگار کیا۔ مغل مرتضیٰ بیگ نے باہر سے آکر ساس کو آداب کیا او رکہا دو پالکیاں ڈیوڑھی میں لگی ہوئی ہیں۔ بسم اللہ کر کے آپ دونوں صاحب سوار ہوجائیں۔ لطف النساء نے کہا، عمر دراز۔ بس اب گھڑی دو گھڑی میں سوار ہوئے جاتے ہیں اور اس کمرہ میں گئی، جس میں کھانا کھایا تھا اور بیٹی نے جو سفید دوشالہ اوڑھایا تھا، اس میں الماری سے مربہ کا مرتبان نکال، بغل میں مارا اور دو شالہ سے اس طرح چھپا لیا کہ کسی کو گمان بھی نہ ہوتا تھا کہ بغل میں کچھ ہے۔ دونوں ماں بیٹیاں پالکیوں میں اور نوکریں، لونڈیاں رتھ منجھولیوں میں سوار ہوکر نواب وزیر کی حویلی میں پہنچ گئیں۔بیاہ بڑی دھوم دھام کا تھا۔ زنانہ میں امیر، غریب پانچ چھ ہزار عورتوں کا ہنگامہ تھا۔ صدر دالان میں بیگمیں، امیر زادیوں کی محفل تھی۔ ڈومنیوں کا ناچ ہو رہا تھا۔ حسنیٰ ڈومنی کی بیس برس کی عمر، صورت بھی بہت دل ربا تھی۔ گانا بھی بہت دلکش تھا۔ نرت خوب کرتی تھی۔ محفل کو رجھا رہی تھی اور انعام پر انعام پارہی تھی۔ شاہ بانو اور لطف النساء گاؤ تکیہ سے لگی بیٹھی تھیں۔ سب گانا سننے میں محو تھے اور لطف النسا کا سیدھا ہاتھ دوشالہ کے نیچے مرتبان کے اندر پڑا ہوا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ دو پھانکیں آم کے مربہ کی ایک ساتھ نکال کر کھاؤں مگر مرتبان کا منہ چھوٹا تھا۔ اس لئے ایک پھانک بھی نہ نکلتی تھی اور لطف النساء دانت پیس کر رہ جاتی تھی۔ یہاں تک کہ رات ہوئی۔ دسترخوان چنا گیا۔ سب مہمانوں نے کھانا کھایا۔کھانے کے بعد سونے کا مناسب انتظام ہوا۔ حسب حیثیت چھپر کھٹ، مسہریاں اور پلنگ، چارپائیاں مہمانوں کوملیں اور سب سورہے۔ ڈومنیاں صحن چبوترہ پر جو فرش تھا، اس پر ڈالی گئیں۔ مگر نیند بری بلا ہے۔ ان غریبوں کو چاندنی پر پڑ کر خبر نہ رہی۔ ایک نہ سوئیں تو لطف النساء، وہ مربہ کھانے کی فکر میں تھیں۔ دو پھانکیں ایک ساتھ اب تک نہ نکلی تھیں۔ مگر موقع اب اچھا آ گیا تھا۔ رات کے تین بجے تھے۔ سب گہری نیند میں مبتلاتھے۔ یہ اپنے پلنگ پر سے اٹھیں۔ مرتبان ان کے ہاتھ میں تھا۔ صحن چبوترہ پر ایک میر فرش انہیں دکھائی دیا، جو چاندنی پر رکھا تھا۔ انہوں نے فرش پر بیٹھ کر مرتبان میر فرش پر مارا، اور مرتبان دو ٹکڑے ہو گیا۔ اور تمام مربہ چاندنی پر گر گیا۔یہ مربہ کی پھانکیں چن چن کر کھانے لگیں۔ مگر بی لطف النساء نے جسے پتھر کا میر فرش سمجھا تھا، وہ دراصل حسنیٰ ڈومنی کا سر تھا۔ شیشہ کے مرتبان کی سخت چوٹ سے وہ زخمی ہو گیا اور حسنیٰ ڈومنی بھیانک آواز سے چیخی۔ جسے سن کر سارا محل جاگ اٹھا۔ روشنی تیز کی گئی اور سب عورتوں نے دیکھا کہ حسنیٰ نامراد کے سر سے خون کے فوارے اڑ رہے ہیں اور مغل کی ساس کچھ اٹھا اٹھا کر کھارہی ہے۔ ڈومنیوں نے کہا کہ لوگو! یہ مغل کی ساس ڈائن ہے۔ حسنیٰ کا بھیجا کھا رہی ہے۔ وہ جب سے محفل میں آئی تھی، ہم دیکھتے تھے کہ وہ حسنیٰ کو گھورتی اور دانت پیستی تھی۔ دربان نے مردانہ میں نواب وزیر کو اورمرتضیٰ بیگ کو اس بات کی خبر دی۔ نواب وزیر نے جراح کو حسنیٰ کی مرہم پٹی کے لئے بلایا۔ اور مرتضیٰ بیگ شاہ بانو اور لطف النسا کو اسی وقت اپنے گھر لے آیا۔ صبح ہوتے ہی اس نے منجھولی میں بٹھا کر لطف النسا کو رتن پور چلتا کیا اور یہ کہہ دیا،بیک آمدن ربودی دل و دیں و جان و خسروچہ شود اگر بدیں ساں دوسہ بار خواہی آمدمیرے ہاں اب کبھی تشریف نہ لائیے گا۔ گھر بیٹھے وظیفہ پائیےگا۔(۳)کہار سواری اتراو لیجئے۔آواز کہاں کی سواری ہے۔کہار حضور رتن پور کی۔ یہ سننا تھا کہ جاہ بانو نے بیتاب ہوکر کہا، اماں جان آ گئیں، اور وہ ڈیوڑھی کی طرف آئی۔ لطف النسا کو ڈولی سے اتار کر لے گئی اور مل کر روئی دھوئی۔ دوپہر کے وقت سوداگر لطف النسا کا داماد بھی آیا، اور ساس کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ لطف النساء نے بیٹی کوبڑے عیش میں پایا۔ سوداگر کی حویلی، دولت اور تجارت کے سامان سے کھچا کھچ بھر رہی تھی۔ سوداگر نے جاہ بانو سے کہا، دیکھنا اماں جان کی دل و جان سے خدمت کرنا اور خاطر تواضع میں کچھ اٹھا نہ رکھنا۔ دو مہینے لطف النساء کے گھر خیر سے گزر گئے، جو ایک دن سوداگر نے باہر سے لاکر ایک مرتبان اپنی بیوی کو دے کر اس سے کہا کہ لو یہ گاجر کا حلوہ ہے۔ تم بھی کھانا اور اماں جان کو بھی کھلانا، مگر اس میں دوائیں بھی ہیں۔ ذرا گرمی کرتا ہے۔ احتیاط سے کھانا۔ لطف النسا نے دوپہر کے وقت دسترخوان پر وہ حلوا کھایا تو بہت بھایا۔ شرم کے مارے بیٹی سے اور مانگا تو نہیں مگر اپنے دل سے کہا، ’’دھیرا رہ چرا کھاؤں گی۔‘‘اتفاقاً وہ مرتبان گودام کے کمرہ میں رکھا گیا، جس میں سوداگری کا سامان بھرا پڑا تھا۔ اوربی لطف النسا کا پلنگ بھی اسی میں بچھا تھا۔ رات کو جویہ سوئیں تو بے کھٹکے مرتبان میں سے حلوہ نکال کر کھانا شروع کیا اور مرتبان خالی کر دیا۔ آدھی پر دو بجے انہیں پائخانہ کی حاجت ہوئی۔ انہوں نے کمرہ کا دروازہ کھول کر نکلنا چاہا مگر باہر سے کنڈی لگی ہوئی تھی۔ اور تقاضہ سخت تھا۔ شمع گل تھی۔ مگر کئی دن سے دیکھ رہی تھیں کہ طاق میں سوداگر کی مغلیہ ٹوپی رکھی ہے۔ وہ اندھیرے میں انہیں مل گئی اور انہوں نے اس سے طشت کا کام لیا۔ اب نجاست کے پھینکنے کی فکر ہوئی جو سامنے دیوار پر نظر پڑی اور تابدان میں سے چودھویں رات کی چاندنی آرہی تھی۔ بڑی خوش ہوئیں۔ اور اپنے پلنگ پر چڑھ کر انہوں نے نجاست سے بھری ٹوپی تابدان سے پرے پھینکنی چاہی، مگر جسے انہوں نے تابدان سمجھا تھا وہ تابدان کا عکس تھا، جو چاندنی میں دیوار پر پڑ رہا تھا۔تابدان دوسری طرف تھا۔ اس لئے ٹوپی نے دیوار سے ٹکر کھائی اور گندگی چھینٹ چھینٹ ہوکر دیوار پر اور چاروں طرف اڑی۔ الگنیوں پر دوشالوں کو، بڑی بی کے منہ کو، لحاف تو شک کو، اور گودام کی اکثر چیزوں کو ناپاک کر دیا۔ بڑی بی نے دن میں بارہا دیکھا تھا کہ گودام میں کسی عرق کے بھرے قرابہ اور شیشے رکھے ہیں۔ اس وقت اس یاد داشت نے کام دیا۔ ایک قرابہ کھول کر اس کے عرق سے اپنا منہ دھویا اور پھر دیواریں اور دوشالے، سونگھ سونگھ کر عرق سے پاک کئے۔ اس میں صبح ہو گئی۔ ایک لونڈی نے گودام کا دروازہ کھولا تو اس نے اپنے سینہ پر ہاتھ مار کر کہا ہے ہے بڑی بیوی کا منہ کالا۔ اس صدا کو سن کر جاہ بانو اور سوداگر دوڑا آیا۔ اور اس نے دیکھا کالی روشنائی کے قرابہ اور شیشہ خالی پڑے ہیں۔ بی لطف النساء اور دوشالہ اور تمام اسباب اور دیواریں گودام کی کالی ہورہی ہیں۔ اور تمام کمرہ بدبو سے سڑ رہا ہے۔ سوداگر نے اپنا یہ نقصان دیکھ کر سر پکڑ لیا۔ جاہ بانونے ماں کو کھڑ کھڑے گھر سے نکال کر کہا، ’’ناشدنی اب ہمارے ہاں کبھی نہ آنا۔‘‘ اور لطف النساء گھر پہنچ گئیں۔(۴)کچھ دن بعد لطف النسا کی مامتا نے پھر اسے ابھارا اور شمشاد بانو سے ملنے کے لئے بے چین ہوکر دلی پہنچی۔ بیٹی داماد بہت ادب سے پیش آئے۔ حسین بخش بادشاہی باورچی تھا اور نت نئے کھانے کھلاتا تھا۔ ایک دن بادشاہ نے حسین بخش سے فرمائش کی کہ شیرازی مزعفر تیار کر کے دن کے کل دس بجے دسترخوان پر لگاؤ۔ اور وہ مزعفر کا سامان بادشاہ کے ہاں سے گھر لے آیا۔ دیگیں اس کے پاس رہتی تھیں۔ مزعفر کی تیاری شروع کردی۔ حسین بخش اور شمشاد بانو نے دس بجے رات تک اسے لگاکر دیگ کو کمرہ میں رکھ لیا۔ تھوڑا سا خود بھی کھایا، تاکہ برائی بھلائی اس کی معلوم ہو جائے اور لطف النساء کو بھی چکھایا اور لطف النساء نے دل سے کہا، ’’دھیرا رہ چرا کھاؤں گی۔‘‘ اور جب شمشاد بانو اور حسین بخش سو رہے تو رات کو بارہ بجے ان کی ساس نے دیگ کھولی اور دیگ کے اوپر بیٹھ کر مزعفر کھانا شروع کیا۔یہاں تک کہ صبح کے چار بج گئے اور بڑی بی کو ایک اسہال ہوا جس کی سخت آواز سے حسین بخش اور شمشاد بانو کی آنکھ کھل گئی اور دونوں کے دونوں یہ کہتے ہوئے بھاگے، غضب ہوا۔ بلی نے بادشاہی کھانے کو بگاڑ دیا۔ پاس جاکر معلوم ہوا کہ بڑی بی ہیں اور دیگ پر بیٹھی ہیں۔ نجاست پیجامہ سے ٹپک ٹپک کر دیگ میں جا رہی ہے۔ باورچی نے یہ تماشا دیکھ اپنے سر میں دو ہتڑ مار کر کہا۔ ہائے اماں جان! آپ نے آج مجھے پھانسی پر چڑھایا۔ بیٹی نے ماں کو اسی حال میں گھر سے نکال کر کہا۔ وفان ہو غارتن۔ اب ہمارے گھر نہ آنا اور لطف النساء رتن پور پہنچ گئی۔(۵)چمیلی کی ٹہنی کی قلم بنائی۔ عرق گلاب اور کیوڑہ میں مشک عنبر کی سیاہی۔ کاغذ کے بدلے ساذج ہندی اور اوراق گل لئے۔ کیونکہ میر عزت حسین بادشاہی خوشبو ساز کے گھر کا حال لکھنا ہے۔ یعنی پورے برس دن بعد لطف النساء کو پھر دلی یاد آئی۔ اور اپنی چھوٹی بیٹی سرو آزاد بانو کے ہاں پہنچ گئی۔ اور اس کے پاس رہنے لگی۔ مگر دل کی کلی نہ کھلتی تھی۔ کیونکہ اچھی چیز کھانے کو نہ ملتی تھی۔ عطروں سے گھر بھرا پڑا تھا۔ مگر عطر سے پیٹ نہیں بھرتا ہے۔ جو ان کی خوش قسمتی سے میر صاحب نے پھولوں میں بسی بسائی دھوئی تلی اندر سے نکالی۔ کولہو میں سر شام ڈالی اور بیل بھی کولہو میں جوت کر کھڑا کردیا تاکہ رات کے ایک دو بجے سے اسے چلتا کردے اور خوشبو کا تیل نکالے۔ دھوئی تلی پر لطف النساء کا دل آ گیا۔ اور اس نے اپنے جی میں کہا، ’’دھیرا رہ چرا کھاؤں گی۔‘‘اور آدھی رات کو جب لڑکی داماد بے خبر سو گئے تو یہ کولھو کی کھپریل میں پہنچی، اور کولہو پر چڑھ دھوئی تلی کے پھنکے مارنے لگیں۔ کولہو کے بیل نے جو کولہو پر بڑی بی کو بیٹھا دیکھا تو وہ چل پڑا اور چرخ چوں ہونے لگی۔ دھوئی تلی کھاتے کھاتے بڑی بی کو بدہضمی ہوئی اور انہیں زور سے دست آیا۔ کولہو کی چرخ چوں سے عزت حسین اور سرو آزاد بانو کی آنکھیں کھل گئی اور انہوں نے سمجھا بیل بے ہنکائے چل پڑا۔ بادشاہی تیل خراب ہوا۔ مگر معلوم ہوا کہ بی لطف النساء نے یہ کرتوت کیا ہے۔ میر صاحب نے کف افسوس مل کر کہا، سرکاری بڑا نقصان ہوا۔ دو برس میں دھوئی تلی بنی تھی۔ کیا جواب دوں گااور کیا منہ دکھاؤں گا۔ لطف النساء کو بیٹی نے فوراً گھر سے نکال دیا، اور رتن پور پہنچ کر وہ پھر کبھی دلی نہ آئی۔یہ قصہ فرضی ہی سہی مگر عبرت کے لئے اصلی ہے۔ حدیث میں آیا ہے۔ ان کثرت الا کل شومٌ۔ بہت سا کھانا نحس ہے۔ خدا معدہ کی آگ سے بچائے۔چوگر سنہ میشوی سگ میشویسخت ناہنجار و بد سگ میشوی


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.