چاندنی ہر شب کو کرتی ہے کنارا چاندنی
چاندنی ہر شب کو کرتی ہے کنارا چاندنی
تیرے خاطر منہ کو دکھلاتی ہے تارا چاندنی
آج مہتابی پہ چڑھتا ہے وہ بہر سیر ماہ
جانتا ہوں کچھ ترا چمکا ستارا چاندنی
بے ضرورت خوش نہیں آتی جہاں میں کوئی چیز
فصل سرما میں نہیں ہوتی گوارا چاندنی
تو چڑھا شب کو جو مہتابی پہ بہر چشم بد
آسماں سے اترے کرنے کو اتارا چاندنی
وصل کی شب کا سما آنکھوں میں چھایا ہے مرے
ماہرو دیکھے نہ پھر ویسے دوبارا چاندنی
روتے روتے ڈوبتا ہے جب شب فرقت میں دل
جانتا ہوں صاف دریا کا کنارا چاندنی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |