چاہتا ہوں پہلے خود بینی سے موت آئے مجھے

چاہتا ہوں پہلے خود بینی سے موت آئے مجھے
by امیر اللہ تسلیم

چاہتا ہوں پہلے خود بینی سے موت آئے مجھے
آپ کو دیکھوں خدا وہ دن نہ دکھلائے مجھے

آس کیا اب تو امید ناامیدی بھی نہیں
کون دے مجھ کو تسلی کون بہلائے مجھے

دل دھڑکتا ہے شب غم میں کہیں ایسا نہ ہو
مرگ بھی بن کر مزاج یار ترسائے مجھے

لے چلو للہ کوئی خضر مینا کے حضور
عالم گم گشتگی کی راہ بتلائے مجھے

اب تو جوش آرزو تسلیمؔ کہتا ہے یہی
روضۂ شاہ نجف اللہ دکھلائے مجھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse