چاہت غمزے جتا رہی ہے

چاہت غمزے جتا رہی ہے
by آغا اکبرآبادی

چاہت غمزے جتا رہی ہے
وحشت صحرا دکھا رہی ہے

غنچوں کا جگر ہلا رہی ہے
بلبل کیا گل کھلا رہی ہے

یوسف کا پتا لگا رہی ہے
خوشبو کنعاں میں آ رہی ہے

شیریں کیا رنگ لا رہی ہے
عاشق کا لہو بہا رہی ہے

کس شوخ کو دیجئے دل زار
کس میں صاحب وفا رہی ہے

آوازۂ فیض ہے جہاں میں
جس کی شہرت سدا رہی ہے

ڈائن ہے پری وشوں کی فرقت
دل کھا کے کلیجہ کھا رہی ہے

جاں نذر ہوئی پری رخوں کی
مٹی کو ہوا اڑا رہی ہے

چاہت کی کشش نے لو ڈبو دی
یوسف کو کنوئیں جھکا رہی ہے

دل میں جو بسے ہوے ہیں گل رو
سرخی آنکھوں میں چھا رہی ہے

گہتا ہوں جبیں کو پائے بت سے
تقدیر لکھا مٹا رہی ہے

ہنستے ہوئے دیکھ کر گلوں کو
شبنم آنسو بہا رہی ہے

اندھیر کا آج سامنا ہے
سرمہ وہ پری لگا رہی ہے

کیوں جان نہیں نکلتی آغاؔ
کیسے صدمے اٹھا رہی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse