چاہیئے دنیا نہ عقبیٰ چاہیئے
چاہیئے دنیا نہ عقبیٰ چاہیئے
جو تجھے چاہے اسے کیا چاہیئے
زندگی کیا جو بسر ہو چین سے
دل میں تھوڑی سی تمنا چاہیئے
تاب نظارہ ان آنکھوں کو کہاں
دیکھنے والوں سے پردا چاہیئے
مجھ کو دیکھو اور میری آرزو
اک حسیں اچھے سے اچھا چاہیئے
وہ بہت دیر آشنا ہے اے جلیلؔ
آشنائی کو زمانا چاہیئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |