چاہیں ہیں یہ ہم بھی کہ رہے پاک محبت
چاہیں ہیں یہ ہم بھی کہ رہے پاک محبت
پر جس میں یہ دوری ہو وہ کیا خاک محبت
آ عشق اگر قصد تجارت ہے کہ اس جا
ہیں تودہ ہر اک گھر دو سہ افلاک محبت
ناصح تو عبث سی کے نہ رسوا ہو کہ ظالم
رکھتا ہے گریباں سے مرے چاک محبت
اپنے تو لئے زہر کی تاثیر تھی اس میں
گو واسطے عالم کے ہو تریاک محبت
بلبل تو ہوں قائمؔ میں پر اس باغ کا جس میں
بے رتبہ ہے مثل خس و خاشاک محبت
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |