چاہ میں اس کی دل نے ہمارے نام کو چھوڑا نام کیا
چاہ میں اس کی دل نے ہمارے نام کو چھوڑا نام کیا
شغل میں اس کے شوق بڑھا کر کام کو چھوڑا کام کیا
زلف دوپٹہ دھانی میں کر کے پنہاں مرا دل باندھ لیا
صید نہ کھاوے کیوں کر جل جب سبزے میں پنہاں دام کیا
رم پر اپنے آہوئے دل کو غرہ نہایت تھا لیکن
چنچل آہوئے چشم نے اس کو ایک نگہ میں رام کیا
سمجھے تھے یوں ہم دل کو لگا کر پاویں گے یاں آرام بہت
حیف اسی فہمید نے ہم کو کیا کیا بے آرام کیا
ہم نے کہا جب ناز بتاں کے تم تو بہت کام آئے نظیرؔ
سن کے کہا کیا آئے جی ہاں کچھ بت کے موافق کام کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |