چتون میں شرارت ہے اور سین بھی چنچل ہے

چتون میں شرارت ہے اور سین بھی چنچل ہے
by نظیر اکبر آبادی

چتون میں شرارت ہے اور سین بھی چنچل ہے
کافر تری نظروں میں کچھ اور ہی چھل بل ہے

بالا بھی چمکتا ہے جگنو بھی دمکتا ہے
بدھی کی لپٹ تس پر تعویذ کی ہیکل ہے

گورا وہ گلا نازک اور پیٹ ملائی سا
سینے کی صفائی بھی ایسی گویا مخمل ہے

وہ حسن کے گلشن میں مغرور نہ ہو کیوں کر
بڑھتی ہوئی ڈالی ہے اٹھتی ہوئی کونپل ہے

انگیا وہ غضب جس کو ململ ہی کرے دل بھی
کیا جانے کہ شبنم ہے نن سکھ ہے کہ ململ ہے

یہ دو جو نئے پھل ہیں سینے پہ ترے ظالم
ٹک ہاتھ لگانے دے جینے کا یہی پھل ہے

ابھرا ہوا وہ سینہ اور جوش بھرا جوبن
ایک ناز کا دریا ہے اک حسن کا بادل ہے

کیا کیجے بیاں یارو چنچل کی رکھاوٹ کا
ہر بات میں در در ہے ہر آن میں چلچل ہے

یہ وقت ہے خلوت کا اے جان نہ کر کل کل
کافر تری کل کل سے اب جی مرا بیکل ہے

کل میں نے کہا اس سے کیا دل میں یہ آیا جو
کنگھی ہے نہ چوٹی ہے مسی ہے نہ کاجل ہے

معلوم ہوا ہم سے روٹھے ہو تم اے جانی
الٹا ہی دوپٹے کا مکھڑے پہ یہ آنچل ہے

یہ سن کے لگی کہنے روٹھی تو نہیں تجھ سے
پر کیا کہوں دو دن سے کچھ دل مرا بیکل ہے

جس دن ہی نظیرؔ آ کر وہ شوخ ملے ہم سے
ہتھ پھیر ہیں بوسے ہیں دن رات کی مل دل ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse