چراغ اس نے بجھا بھی دیا جلا بھی دیا

چراغ اس نے بجھا بھی دیا جلا بھی دیا
by بشیر الدین احمد دہلوی

چراغ اس نے بجھا بھی دیا جلا بھی دیا
یہ میری قبر پہ منظر نیا دکھا بھی دیا

یہ چھیڑ کیا ہے یہ کیا مجھ سے دل لگی ہے کوئی
جگایا نیند سے جاگا تو پھر سلا بھی دیا

ادھر تھا لطف و کرم ان کا اس طرف تھا عتاب
چراغ امید کا روشن کیا بجھا بھی دیا

یہ شوخیاں نئی دیکھیں تمہاری چتون میں
کہ پردہ رخ پہ لیا اور پھر اٹھا بھی دیا

ادھر لگاؤ ادھر برہمی کے ہیں آثار
مجھے پھنسا بھی لیا اور پھر چھڑا بھی دیا

نکل گئے مری آنکھوں سے سیکڑوں آنسو
خزانہ جمع کیا اور پھر لٹا بھی دیا

نیا ہے حسن کے بازار کا اتار چڑھاؤ
چڑھایا سر پہ نگاہوں سے پھر گرا بھی دیا

ذرا تو پاس طلب عاشقوں کا تم کرتے
بلایا پاس بھی پھر پاس سے ہٹا بھی دیا

یہ ان کا کھیل تو دیکھو کہ ایک کاغذ پر
لکھا بھی نام مرا اور پھر مٹا بھی دیا

اگرچہ راہ محبت ہے تنگ و تار مگر
اسی کے ساتھ ہمیں عقل کا دیا بھی دیا

بشیرؔ سینگ کٹا کر ملے ہیں بچھڑوں میں
بنے جوان بڑھاپے کا غم بھلا بھی دیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse