چراغ حسن ہے روشن کسی کا
چراغ حسن ہے روشن کسی کا
ہمارا خون ہے روغن کسی کا
ابھی نادان ہیں محشر کے فتنے
رہیں تھامے ہوئے دامن کسی کا
دل آیا ہے قیامت ہے مرا دل
اٹھے تعظیم دے جوبن کسی کا
یہ محشر اور یہ محشر کے فتنے
کسی کی شوخیاں بچپن کسی کا
ادائیں تا ابد بکھری پڑی ہیں
ازل میں پھٹ پڑا جوبن کسی کا
کیا تلوار نے گھونگھٹ مرے بعد
نہ منہ دیکھے گی یہ دلہن کسی کا
ہماری خاک محشر تک اڑی ہے
نہ ہاتھ آیا مگر دامن کسی کا
بجائے گل مری تربت پہ ہوں خار
کہ الجھے گوشۂ دامن کسی کا
بیاںؔ برق بلا چتون کسی کی
دل پر آرزو خرمن کسی کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |