چراغ حسن ہے روشن کسی کا

چراغ حسن ہے روشن کسی کا
by بیان میرٹھی
324858چراغ حسن ہے روشن کسی کابیان میرٹھی

چراغ حسن ہے روشن کسی کا
ہمارا خون ہے روغن کسی کا

ابھی نادان ہیں محشر کے فتنے
رہیں تھامے ہوئے دامن کسی کا

دل آیا ہے قیامت ہے مرا دل
اٹھے تعظیم دے جوبن کسی کا

یہ محشر اور یہ محشر کے فتنے
کسی کی شوخیاں بچپن کسی کا

ادائیں تا ابد بکھری پڑی ہیں
ازل میں پھٹ پڑا جوبن کسی کا

کیا تلوار نے گھونگھٹ مرے بعد
نہ منہ دیکھے گی یہ دلہن کسی کا

ہماری خاک محشر تک اڑی ہے
نہ ہاتھ آیا مگر دامن کسی کا

بجائے گل مری تربت پہ ہوں خار
کہ الجھے گوشۂ دامن کسی کا

بیاںؔ برق بلا چتون کسی کی
دل پر آرزو خرمن کسی کا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.