چراغ مہ سیں روشن تر ہے حسن بے مثال اس کا
چراغ مہ سیں روشن تر ہے حسن بے مثال اس کا
کہ چوتھے چرخ پر خورشید ہے عکس جمال اس کا
صنم کی زلف کے حلقے میں ہے جیوں جیم کا نقطہ
عجب ہے خوش نما اس عارض گلگوں پہ خال اس کا
عیاں ہوتا ہے جیوں کر سرو پانی کے کنارے پر
ہوا یوں جلوہ گر آنکھوں میں قد نونہال اس کا
جدا جب سیں ہوا وو دلبر جادو نظر مجھ سیں
جدا ہوتا نہیں یک آن خاطر سیں خیال اس کا
مجھے ہے آرزو دل میں تری چاہ زنخداں کی
نہیں درکار حوض کوثر و آب زلال اس کا
گرفتار ہوس کیا لذت دیدار کوں پاوے
جدا جو کوئی ہوا ہے آپ سیں پایا وصال اس کا
سراجؔ اے شعلہ رو ہے کون سا سو میں نہیں واقف
مجھے کیا پوچھتا ہے پوچھ پروانے سیں حال اس کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |