چشم خونخوار ابروئے خم دار دونوں ایک ہیں
چشم خونخوار ابروئے خم دار دونوں ایک ہیں
ہیں جدا لیکن بوقت کار دونوں ایک ہیں
باعث آرام یہ نے موجب آزار وہ
چشم وحدت میں ہی گل اور خار دونوں ایک ہیں
التیام زخم دل کے حق میں گر کیجے نگاہ
سبزۂ خط مرہم زنگار دونوں ایک ہیں
حالت استغنا کی جس کے ہاتھ آئی ہے یہاں
اس کے نزدیک اندک و بسیار دونوں ایک ہیں
میرے اس کے گو جدائی آ گئی ہے درمیاں
جس گھڑی باہم ہوئے دو چار دونوں ایک ہیں
جو نہ مانے اس کو عاشق ہو کے اس پہ دیکھ لے
ابروئے خم دار اور تلوار دونوں ایک ہیں
کیا کہوں میں اس کو آنکھوں نے دیئے ہیں جو فریب
فن مکاری میں یہ مکار دونوں ایک ہیں
جو ہے کعبہ وہ ہی بت خانہ ہے شیخ و برہمن
اس کی ناحق کرتے ہو تکرار دونوں ایک ہیں
یہ نہیں کہنے کا ؔجوشش ہوگا جو صاحب دماغ
زلف یار و نافۂ تاتار دونوں ایک ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |