چلتے ہیں گلشن فردوس میں گھر لیتے ہیں
چلتے ہیں گلشن فردوس میں گھر لیتے ہیں
طے یہ منزل جو خدا چاہے تو کر لیتے ہیں
عشق کس واسطے کرتے ہیں پری زادوں سے
کس لیے جان پر آفت یہ بشر لیتے ہیں
دیکھنے بھی جو وہ جاتے ہیں کسی گھائل کو
اک نمکداں میں نمک پیس کے بھر لیتے ہیں
خاک اڑ جاتی ہے ستھراو ادھر ہوتا ہے
نیمچا کھینچ کے وہ باگ جدھر لیتے ہیں
میں وہ بیمار ہوں اللہ سے جا کے عیسیٰ
مرے نسخوں کے لیے حکم اثر لیتے ہیں
یار نے لوٹ لیا مجھ وطن آوارہ کو
لوگ غربت میں مسافر کی خبر لیتے ہیں
اس طرف ہیں کہ جھروکے میں ادھر بیٹھے ہیں
جائزہ کشتوں کا اپنے وہ کدھر لیتے ہیں
ٹھیک اس رشک چمن کو وہ قبا ہوتی ہے
ناپ کر جس کی رگ گل سے کمر لیتے ہیں
کچھ ٹھکانا ہے پری زادوں کی بے رحمی کا
عشق بازوں سے قصاص آٹھ پہر لیتے ہیں
یہ نیا ظلم ہے غصہ جو انہیں آتا ہے
بے گناہوں کو بھی ماخوذ وہ کر لیتے ہیں
شہرت اس صید وفادار کی اڑ جاتی ہے
تیر میں جس کے لگانے کو وہ پر لیتے ہیں
کہتے ہیں حوروں کے دل میں ترے کشتوں کے بناؤ
اس لئے خوں میں نہا کر وہ نکھر لیتے ہیں
کس قدر نامہ و پیغام کو ترسایا ہے
بھیجتے ہیں خبر اپنی نہ خبر لیتے ہیں
دم نکلتے ہیں کلیجوں سے لہو جاری ہے
سانس الٹی ترے تفتیدہ جگر لیتے ہیں
چل کھڑے ہوں گے تو ہستی میں نہ پھر ٹھہریں گے
جان جاں چند نفس دم یہ بشر لیتے ہیں
ہے اشارہ یہی مو ہائے مژہ کا ان کی
ہم وہ نشتر ہیں کہ جو خون جگر لیتے ہیں
سامنا کرتے ہیں جس وقت گدا کا تیرے
بادشہ تخت رواں پر سے اتر لیتے ہیں
سکۂ داغ جنوں پاس ہیں رہنا ہشیار
لوگ رستے میں شرفؔ جیب کتر لیتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |