چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
چل پرے ہٹ مجھے نہ دکھلا منہ
اے شب ہجر تیرا کالا منہ
آرزوئے نظارہ تھی تو نے
اتنی ہی بات پر چھپایا منہ
دشمنوں سے بگڑ گئی تو بھی
دیکھتے ہی مجھے بنایا منہ
بات پوری بھی منہ سے نکلی نہیں
آپ نے گالیوں پہ کھولا منہ
ہو گیا راز عشق بے پردہ
اس نے پردہ سے جو نکالا منہ
شب غم کا بیان کیا کیجئے
ہے بڑی بات اور چھوٹا منہ
جب کہا یار سے دکھا صورت
ہنس کے بولا کہ دیکھو اپنا منہ
کس کو خون جگر پلائے گا
ساغر مے کو کیوں لگایا منہ
پھر گئی آنکھ مثل قبلہ نما
جس طرف اس صنم نے پھیرا منہ
گھر میں بیٹھے تھے کچھ اداس سے وہ
بولے بس دیکھتے ہی میرا منہ
ہم بھی غمگین سے ہیں آج کہیں
صبح اٹھے تھے دیکھ تیرا منہ
سنگ اسود نہیں ہے چشم بتاں
بوسہ مومنؔ طلب کرے کیا منہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |