چل کر نہ زلف یار کو تو اے صبا بگاڑ
چل کر نہ زلف یار کو تو اے صبا بگاڑ
اندھیر ہوگا اس سے اگر ہو گیا بگاڑ
عاشق کو ہر طرح ہے مصیبت کا سامنا
اچھا ترا ملاپ نہ اچھا ترا بگاڑ
میں کیوں کروں کسی کو مکین مکان دل
میں کیوں کہوں کسی سے کہ تو گھر مرا بگاڑ
موقوف ایک دو پہ نہیں یار کا عتاب
اس سے جدا بگاڑ ہے اس سے جدا بگاڑ
ہوتی تھی عاشقوں میں بڑے لطف سے بسر
بیٹھے بٹھائے آپ نے کیوں کر لیا بگاڑ
ایسے مریض عشق کا کس سے علاج ہو
پیدا کرے مزاج میں جس کے دوا بگاڑ
نازک مزاج یار کا برتاؤ کیا کہوں
دو دن رہا ملاپ تو برسوں رہا بگاڑ
اچھوں میں عیب بھی ہو تو داخل ہنر میں ہے
رکھتا ہے سو بناؤ تری زلف کا بگاڑ
اچھا ہوا جلیلؔ سے تم صاف ہو گئے
اغیار نے تو ڈال دیا تھا برا بگاڑ
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |