چمکے ہیں سب کے بخت تری جلوہ گاہ میں
چمکے ہیں سب کے بخت تری جلوہ گاہ میں
واں کچھ نہیں تمیز سفید و سیاہ میں
رحمت جھلک رہی ہے غضب کی نگاہ میں
دل پا رہا ہے لذت طاعت گناہ میں
ہیں جب تجھی پہ شیخ و برہمن مٹے ہوئے
پھر فرق کیا ہے بتکدہ و خانقاہ میں
پہلے وہی بہشت میں جائے تو لطف ہے
سبقت ہوئی ہے جس کی طرف سے گناہ میں
بندے ہوں تاکہ خلعت رحمت کے مستحق
بھر دی ہے کوٹ کوٹ کے لذت گناہ میں
تاثیر آہ و نالہ تو معلوم ہاں مگر
دل کا بخار خوب نکلتا ہے آہ میں
مشتاقؔ آئے راہ پہ وہ شوخ یا نہ آئے
اپنی طرف سے فرق نہ آئے نباہ میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |