319594چند بیلمرزا عظیم بیگ چغتائی

ایک بیل کو میں نے دیکھا کہ خاموش بیٹھا جگالی کر رہا ہے۔ آنکھیں نیم باز ہیں اور ایک کتا بڑی مشقت، تن دہی اور انہماک کے ساتھ اس کے منہ کے سامنے کھڑا بھونک رہا ہے۔ بڑھ بڑھ کر بھونکتا ہے اور پیچھے ہٹتا ہے۔ آخر جب کتا بہت قریب پہنچ گیا تو بیل نے زور سے ’’سوال‘‘ کر کے یوں سر ہلا دیا جیسے ہم آپ نفی کے طور پر سر ہلاتے ہیں۔ کتا پچھاڑ کھا کر بھاگا اور بدحواسی میں ایک آدمی سے جس کے سر پر ایک ٹوکرا تھا لڑ گیا، اور ٹوکرا گر گیا۔ بیل خاموش بیٹھا جگالی کرتا رہا۔

ایک بیل کو میں نے دیکھا کہ اس کے پیچھے ایک چھوٹا کتا اور دوعدد پاؤ ڈیڑھ پاؤ وزن کے پلے دوڑ رہے ہیں۔ بیل نے بدحواس ہو کر ہاکی فیلڈ کا رخ کیا۔ ایک خوانچہ لوٹ دیا۔ ایک بنچ مع لڑکوں کے پھاند گیا۔ میدان میں جب لڑکے دوڑے تو گول میں گھس پڑا، اس طرح کہ جالی توڑ کر پار نکل گیا۔ سوچتا ہوگا کہ آج بال بال بچے، کیونکہ کتے اس سے الگ ہوگئے۔ ایک بیل کو میں نے دیکھا کہ اِدھر سے آ رہا ہے۔ اُدھر سے میں جا رہا تھا۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب سے گزرے۔ سردی کے دن تھے۔ وہ ٹاٹ کا اوور کوٹ پہنے ہوئے تھا اور میں اون کا اوور کوٹ پہنے تھا۔

ایک بیل نے (جس کا لقب سانڈ تھا) ایک چھوٹی سی بیل گاڑی پر حملہ کیا، جس میں میں بیٹھا تھا۔ دو بیل گاڑی کے اور تیسرا یہ سانڈ، ان تینوں کی کوشش کہیے یا بدعنوانی، نتیجہ یہ نکلا کہ گاڑی کا ایک پہیہ بڑے مزے سے ایک فٹ اونچی چبوتری پر چڑھ گیا، گاڑی ٹوٹ گئی۔ نیچے ہم لوگوں کے بھوسا رکھا تھا۔ چوٹ کم لگی مگر گت خوب بنی۔ سانڈ ادائے عرض کے بعد بھاگ گیا۔

ایک مرتبہ میں بیل گاڑی پر بڑی دور جا رہا تھا۔ ایک بیل موٹا تھا اور ایک دبلا۔ جو موٹا تھا وہ سست چلتا تھا اور مار کو بھی کسی شمار میں نہ لاتا تھا۔ میں نے تنگ آکر گاڑی والے سے کہا کہ اس کو خوب مارو۔ وہ بولا کہ اسے زیادہ مارا تو وہ فوراً نان کو آپریشن کر دے گا اور چلتے چلتے بیٹھ جائے گا۔ پھر چاہے کاٹ ڈالو مگر یہ نہ اٹھے گا۔ مجھے یہ بات ناممکن معلوم ہوئی اور اس کو پٹوایا۔ نتیجہ یہ کہ وہ بیٹھ گیا اور بری طرح مارا اور کھڑا کرنے کی کوشش کی تو وہ لیٹ گیا۔ اب قیاس میں آنا، ناممکن ہے کہ کس کس طرح اس کو مارا مگر نہ اٹھنا تھا نہ اٹھا۔ آنکھوں پر مارا، سینگوں پر مارا، منہ توڑ دیا، مگر وہ لیٹا رہا۔ جب میں ہار گیا تو کنارے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر دم لینے لگا کیونکہ مارتے مارتے تھک گیا تھا۔ سگریٹ سلگایا۔ گاڑی والے نے اپنی چلم سلگائی۔ نہ معلوم مجھے کیا سوجھی کہ گاڑی والے کی چلم لے کر بیل کی دم کے نیچے جلتی ہوئی مہر کی طرح لگا دی۔ میں آپ سے کیا عرض کروں کہ کیسے وہ تڑپ کر اٹھا ہے کہ بیان سے باہر۔ پھر لطف یہ کہ سولہ میل تک اس کو ہر طرح مارا مگر پھر کبھی نہ بیٹھا۔ چند مہینے بعد گاڑی والا پھر ملا اور کہنے لگا کہ بس ایک دفعہ اور لیٹ گیا تھا مگر وہ ترکیب جو کی تو پھر کبھی بھول کر بھی اس نے ایسی غلطی نہیں کی۔

ایک بیل کی طبیعت خراب ہوگئی یعنی ہماری اور آپ کی طرح زبان میں چھالے پڑ گئے۔ ایک دیہاتی سول سرجن آئے جو ذات کے چمار تھے۔ انہوں نے معائنہ کیا۔ تیل اور نمک طلب فرمایا۔ دونوں کو ملا کر ایک برتن میں رکھا۔ بیل کو پیر باندھ کر گرایا اور پھر زبان اس کی باہر نکال کر ایک کھرپے سے زبان کے چھالے بری طرح چھیلے۔ اس کے بعد نمک اور تیل اچھی طرح زبان پر ملا اور اس کے بعد بڑی صفائی سے اپنا جوتا اتار کر زمین پر اس کا تلا رگڑ کر زور زور سے بیل کی زبان کو رگڑا۔ پھر چھوڑ دیا۔ بیل صاحب کھڑے کردیے گئے۔ ناک میں زبان بار بار ڈال رہے تھے۔ آپریشن نہایت ہی کامیاب رہا۔ بیل صاحب تیسرے ہی روز صحت یاب ہوگئے۔

ایک بیل صاحب کو میں نے دیکھا جن کی قیمت معلوم ہوا پانچ سو اسی روپے ہے۔ وہ اس طرح پر کہ اسی روپیہ کے تو وہ خود تھے اور پانچ سو روپیہ کا نوٹ کھا گئے تھے اور کھا کر فوراً بھاگ گئے اور دن بھر نہ ملے۔ ورنہ غالباً قتل کر دیے جاتے۔

ایک مرتبہ ہم لوگ شکار کو گئے۔ مستقر سے شکار گاہ تک بیل گاڑی سے پہنچے۔ ایک مناسب مقام پر گاڑی چھوڑ دی اور شکار میں مشغول ہو گئے۔ ہم سب لوگوں کا اور بیلوں کا ناشتہ گاڑی میں رکھا تھا۔ ایک بیل صاحب اپنا ناشتہ کھاتے کھاتے ہم لوگوں کے ناشتے کی طرف متوجہ ہوگئے۔ سالن کی قسم سے جتنی چیزیں تھیں وہ زیادہ تر پھینک دیں۔ پراٹھے کل کے کل کھالیے اور دسترخوان کھا رہے تھے کہ ہم لوگ بھوک پر دھار رکھے ہوئے کھانے کے لیے پہنچے جو ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیل صاحب دسترخوان کھانے میں مشغول ہیں۔ در حالیکہ ہم گیارہ بھوکے یہ سوچنے لگے کہ دسترخوان پراٹھوں سے پہلے کھایا جاتا ہے یا پراٹھوں کے بعد۔ معلوم ہوا کہ پراٹھوں کے بعد کھایا جاتا ہے۔ بھوک کے مارے مر مر گئے۔ ورنہ جس نے ہمارا ناشتہ کھا لیا ہم اس کا ناشتہ کھا جاتے۔ کچھ بھی ہو۔ یہ پتہ چل گیا کہ شکار اس کو کہتے ہیں۔

ایک بیل صاحب کے بے تکلف احباب میں سے ایک کتے صاحب خوش ہو جاتے اور دو پیر سے کھڑے ہو کر ان سے گلے ملتے۔ جھوٹ موٹ ان کے پیروں میں کاٹ کاٹ کر بھاگتے اور یہ تمام باتیں بیل صاحب خندہ پیشانی سے گوارا فرماتے بلکہ جواباً کتے صاحب کو محبت کی نظر سے دیکھتے۔ صبح معمول تھا کہ بیل صاحب تشریف فرما ہیں اور ان کے بے تکلف دوست صاحب ان کے گلے میں باہیں ڈال کر ان سے کھیل رہے ہیں۔ دوپہر کو کتے صاحب اپنے دوست کے بالکل ہی پاس آرام فرما تھے۔

آگرے میں ایک سانڈ صاحب ہیں۔ ان کا دستور ہے کہ کسی مٹھائی کھٹائی کی دکان پر کھڑے ہوکر کھانا شروع کر دیا۔ اب لوگ مار رہے ہیں تو وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ محبت ہے۔ یعنی لوگ مار مار کر کھلا رہے ہیں۔ لہٰذا جہاں تک مار یا زور کی وجہ سے ہٹنے یا ہٹانے کا تعلق ہے، وہاں تک ہٹنے سے کیا مطلب۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے سامنے ہی سے چیز اٹھالی جائے۔ چنانچہ جب میزبان کی اس طرح سے نیت معلوم کر لی تو پھر ٹھہرنا بیکار خیال فرماتے ہیں۔

ایک بیل کے مالک ہیں کہ جنہوں نے ایک اعلیٰ درجے کا علمی و ادبی رسالہ جاری کر رکھا ہے اور لطف یہ کہ جنوری میں سالگرہ نمبر کا اہتمام بھی فرماتے ہیں۔ آپ کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ دسمبر کے پرچے میں ایک عجیب و غریب عنوان تجویز فرما کر میرا نام چھاپ دیا کہ ہمارے ’’مشہور مزاحیہ نگار‘‘ اس پر مضمون لکھیں گے۔ اب آپ ہی کہیے کہ کیا میں اس عجیب و غریب مطالبے سے عہدہ برآ ہو سکا ہوں۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.