چنچلاہٹ میں تو ممولا ہے
چنچلاہٹ میں تو ممولا ہے
جھلجھلاہٹ میں در امولا ہے
دیکھ تجھ مکھ کوں یوں چھپے یوسف
جوں کبوتر کنویں میں کولا ہے
سیر کرتا ہوں بیٹھ کر اس بیچ
دل ہمارا اڑن کھٹولا ہے
سرو سیں قد ہے یار کا موزوں
میں نے میزان لیں کے تولا ہے
سرد مہری سیں بے وفا کا حال
ہے خنک اس قدر کہ اولا ہے
جان کر کے اجان ہوتا ہے
تم نہ جانو کہ جان بھولا ہے
ہم سوں سب مل کہو مبارک باد
کہ ٹک اک ہنس کے آ کے بولا ہے
آبروؔ ہائے کیوں گلے نہ لگا
میرے دل میں یہی ملولا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |