چودھویں کا چاند

چودھویں کا چاند (1955)
by سعادت حسن منٹو
319980چودھویں کا چاند1955سعادت حسن منٹو

اکثر لوگوں کا طرزِ زندگی، ان کے حالات پر منحصر ہوتا ہے اور بعض بیکار اپنی تقدیر کا رونا روتے ہیں۔ حالانکہ اس سے حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتے ہیں اگر حالات بہتر ہوتے تو وہ ضرور دنیا میں کچھ کر دکھاتے۔ بیشتر ایسے بھی ہیں جو مجبوریوں کے باعث قسمت پر شاکر رہتے ہیں۔ ان کی زندگی ان ٹرام کاروں کی طرح ہے جو ہمیشہ ایک ہی پٹری پر چلتی رہتی ہیں۔ جب کنڈم ہو جاتی ہیں تو انہیں محض لوہا سمجھ کر کسی کباڑی کے پاس فروخت کردیا جاتا ہے۔

ایسے انسان بہت کم ہیں جنہوں نے حالات کی پروا نہ کرتے ہوئے زندگی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں سنبھال لی۔ ٹامسن ولسن بھی اسی قبیل سے تھا۔اس نے اپنی زندگی بدلنے کیلیے انوکھا قدم اُٹھایا، پر اس کی منزل کا چونکہ کوئی پتا نہیں تھا، اس لیے اس کی کامیابی کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل تھا۔

اس کے اس انوکھے پن کے متعلق میں نے بہت کچھ سنا۔ سب سے پہلے لوگ یہی کہتے کہ وہ خلوت پسند ہے لیکن میں نے دل میں تہیّہ کرلیا کہ کسی نہ کسی حیلے اسے اپنی داستانِ زندگی بیان کرنے پر آمادہ کرلوں گا کیونکہ مجھے دوسرے آدمیوں کے بیان کی صداقت پر اعتماد نہیں تھا۔

میں چند روز کے لیے ایک صحت افزا مقام پر گیا، وہیں اس سے ملاقات ہوئی۔ میں دریا کنارے اپنے میزبان کے ساتھ کھڑا تھا کہ وہ ایک دم پکار اُٹھا،’’ولسن!‘‘

میں نے پوچھا،’’ کہاں ہے؟‘‘

میرے میزبان نے جواب دیا،’’ارے بھئی! وہی جو منڈیر پر نیلی قمیص پہنے ہماری طرف پیٹھ کیے بیٹھا ہے۔‘‘

میں نے اس کی طرف دیکھا اورمجھے نیلی قمیص اور سفید بالوں والا سر نظر آیا۔ میری بڑی خواہش تھی کہ وہ مڑ کر دیکھے اور ہم اسے سیر و تفریح کے لیے ساتھ لے جائیں۔اس وقت سورج کا عکس دریا میں ڈوب رہا تھا۔ سیر کرنے والے چہچہا رہے تھے۔ اتنے میں گرجے کی یک آہنگ گھنٹیاں بجنے لگیں۔میں اس وقت قدرت کی دل فریبیوں سے اس قدر مسحور ہو چکا تھا کہ ولسن کو اپنی طرف آتے نہ دیکھ سکا۔ جب وہ میرے پاس سے گزرا تو میرے دوست نے اسے روک لیا اور اس کا مجھ سے تعارف کرایا۔ اس نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا، لیکن کسی قدر بے اعتنائی سے۔۔۔ میرے دوست نے اس کو محسوس کیا اور اس کو شراب کی دعوت دی۔

مدعو کیے جانے پر وہ مسکرایا۔ اگرچہ اس کے دانت خوبصورت نہ تھے پھر بھی اس کی مسکراہٹ دلکش تھی۔۔۔ وہ نیلی قمیص اور خاکستری پتلون پہنے تھا جو کسی حد تک میلی تھی۔ اس کے لباس کو اس کے جسم کی ساخت سے کوئی مناسبت نہیں تھی۔اس کا چہرہ لمبوترا، پتلے ہونٹ اور آنکھیں بھورے رنگ کی تھیں۔چہرے کے خطوط نمایاں، جن سے نمایاں تھا کہ جوانی میں وہ ضرور قبول صورت ہوگا۔ وضع قطع کے اعتبار سے وہ کسی بیمہ کمپنی کا ایجنٹ معلوم ہوتا تھا۔

ہم چہل قدمی کرتے، ایک ریستوران میں پہنچ کر، اس سے ملحقہ باغیچے میں بیٹھ گئے اور بیرے کو شراب لانے کے لیے کہا۔ ہوٹل والے کی بیوی بھی وہاں موجود تھی۔ ادھیڑ پن کی وجہ سے اب اس میں وہ بات نہیں رہی تھی لیکن چہرے کا نکھار اب بھی گزری ہوئی کراری جوانی کی چغلیاں کھا رہا تھا۔تیس سال پہلے بڑے بڑے آرٹسٹ اس کے دیوانے تھے، اس کی بڑی بڑی شرابی آنکھوں اور شہد بھری مسکراہٹوں میں عجب دل کشی تھی۔

ہم تینوں بیٹھے یوں ہی اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ چونکہ موضوع دلچسپ نہیں تھے، اس لیے ولسن تھوڑی دیر کے بعد رخصت مانگ کر چلا گیا۔ ہم بھی اس کے رخصت ہونے پر اداس ہوگئے۔راستے میں میرے دوست نے ولسن کے بارے میں کہا،’’مجھے تو تمہاری سنائی ہوئی کہانی بے سروپا معلوم ہوتی ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’وہ اس قسم کی حرکت کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔‘‘

اس نے کہا،’’کوئی شخص کسی کی فطرت کے متعلق صحیح اندازہ کیسے لگا سکتا ہے؟‘‘

’’مجھے تو وہ عام انسان دکھائی دیتا ہے۔ جوچند محفوظ کفالتوں کے سہارے کاروبار سے علیحدہ ہو چکا ہے۔‘‘

’’تم یہی سمجھوٖ، ٹھیک ہے۔‘‘

دوسرے دن دریا کنارے ولسن ہمیں پھر دکھائی دیا۔ بھورے رنگ کا لباس پہنے، دانتوں میں پائپ دبائے کھڑا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے چہرے کی جھریوں اور سفید بالوں سے بھی جوانی پھوٹ رہی ہے۔ہم کپڑے اتار کر پانی کے اندر چلے گئے۔ جب میں نہا کر باہر نکلا توولسن زمین پر اوندھے منہ لیٹا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ میں سگریٹ سلگا کر اس کے پاس گیا۔اس نے کتاب سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھا اور پوچھا،’’بس، نہا چکے۔‘‘

میں نے جواب دیا،’’ہاں۔۔۔ آج تو لطف آگیا۔۔۔ دنیا میں اس سے بہتر نہانے کی اور کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔۔۔ تم یہاں کتنی مدت سے ہو؟‘‘

اس نے جواب دیا،’’پندرہ برس سے۔‘‘

یہ کہہ کروہ دریا کی مچلتی ہوئی نیلی لہروں کی طرف دیکھنے لگا، اس کے باریک ہونٹوں پر لطیف سی مسکراہٹ کھیلنے لگی،’’پہلی بار یہاں آتے ہی مجھے اس جگہ سے محبت ہوگئی۔۔۔ تمہیں اس جرمن کا قصہ معلوم ہے، جو ایک بار یہاں لنچ کھانے آیا اور یہیں کا ہو کے رہ گیا۔۔۔ وہ چالیس سال یہاں رہا۔۔۔ میرا بھی یہی حال ہوگا۔ چالیس برس نہیں تو پچیس تو کہیں نہیں گئے۔‘‘

میں چاہتا تھا کہ وہ اپنی گفتگو جاری رکھی۔ اس کے الفاظ سے ظاہر تھا کہ اس کے افسانے کی حقیقت ضرور کچھ ہے۔اتنے میں میرا دوست بھیگا ہوا ہماری طرف آیا۔ بہت خوش تھا کیونکہ وہ دریا میں ایک میل تیر کر آرہا تھا۔ اس کے آتے ہی ہماری گفتگو کا موضوع بدل گیا۔ اور بات ادھوری رہ گئی۔اس کے بعد ولسن سے متعدد بار ملاقات ہوئی، اس کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتیں۔ وہ اس جزیرے کے چپے چپے سے واقف تھا۔

ایک دن چاندنی رات کا لطف اٹھانے کے بعد، میں نے اور میرے دوست نے سوچا کہ چلو مونٹی سلادو کی پہاڑی کی سیر کریں۔ میں نے ولسن سے کہا ،’’آؤ یار تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔‘‘ولسن نے میری دعوت قبول کرلی۔ لیکن میرا دوست ناسازی طبع کا بہانہ کرکے ہم سے جدا ہوگیا۔ خیر، ہم دونوں پہاڑی کی جانب چل دیے اور اس سیر کا خوب لطف اُٹھایا۔ شام کے دھندلکے میں تھکے ماندے، بھوکے سرائے میں آئے۔

کھانے کا انتظام پہلے ہی کررکھا تھا جو بہت لذیذ ثابت ہوا۔ شراب انگور کی تھی۔ پہلی بوتل تو سویاں کھانے کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ دوسری کے آخری جام پینے کے بعد میرے اور ولسن کے دماغ میں بیک وقت یہ خیال سمانے لگا کہ زندگی کچھ ایسی دشوار نہیں۔ہم اس وقت باغیچے میں انگوروں سے لدی ہوئی بیل کے نیچے بیٹھے تھے۔رات کی خاموش فضا میں ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ سرائے کی خادمہ ہمارے لیے پنیر اور انجیریں لے آئی۔

ولسن تھوڑے سے وقفے کے بعد مجھ سے مخاطب ہوا،’’ہمارے چلنے میں ابھی کافی دیر ہے۔ چاند کم از کم ایک گھنٹے تک پہاڑی کے اوپر آئے گا۔‘‘ میں نے کہا،’’ہمارے پاس فرصت ہی فرصت ہے۔۔۔ یہاں آکر کوئی انسان بھی عجلت کے متعلق نہیں سوچ سکتا۔‘‘ ولسن مسکرایا، ’’فرصت۔۔۔ کاش لوگ اس سے واقف ہوتے۔ ہر انسان کو یہ چیز مفت میسر ہوسکتی ہے۔ لیکن لوگ کچھ ایسے بے وقوف ہیں کہ وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔۔۔ کام۔۔۔؟ کم بخت، اتنا سمجھنے کے بھی اہل نہیں کہ کام کرنے سے غرض صرف فرصت حاصل کرنا ہے۔‘‘

شراب کا اثر عموماً بعض لوگوں کو غورو فکر کی طرف لے جاتا ہے۔ ولسن کا خیال اپنی جگہ درست تھا۔ مگر کوئی اچھوتی اور انوکھی بات نہیں تھی۔اس نے سگریٹ سلگایا اور کہنے لگا،’’جب میں پہلی بار یہاں آیا، تو چاندنی رات کا سماں تھا۔۔۔ آج بھی وہی چودھویں کا چاند آسمان پر نظر آئے گا۔‘‘

میں مسکرا دیا، ’’ضرور نظر آئے گا۔‘‘

وہ بولا، ’’دوست، میرا مذاق نہ اڑاؤ۔۔۔ جب میں اپنی زندگی کے پچھلے پندرہ برسوں پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یہ طویل عرصہ ایک مہینے کا دھندلکا وقفہ سا لگتا ہے۔۔۔ آہ، وہ رات، جب پہلی بارمیں نے چبوترے پر بیٹھ کر چاند کا نظارہ کیا۔ کرنیں دریا کی سطح پر چاندی کے پترے چڑھا رہی تھیں۔ میں نے اس وقت شراب ضرور پی رکھی تھی لیکن دریا کے نظارے اور آس پاس کی فضا نے جو نشہ پیدا کیا، وہ شراب کبھی پیدا نہ کرسکتی۔‘‘

اس کے ہونٹ خشک ہونے لگے۔ اس نے اپنا گلاس اٹھایا، مگر وہ خالی تھا، ایک بوتل منگوائی گئی، ولسن نے دو چار بڑے بڑے گھونٹ پیے اور کہنے لگا،’’اگلے دن میں دریا کنارے نہایا اور جزیرے میں ادھر ادھر گھومتا رہا۔۔۔ بڑی رونق تھی۔۔۔ معلوم ہوا کہ حسن و عشق کی دیوی افرو ڈائٹ کا تیوہار ہے۔۔۔ اگر میری تقدیر میں سدا بینک کا منتظم ہونا ہی لکھا ہوتا تو یقیناً مجھے ایسی سیر کبھی نصیب نہ ہوتی۔‘‘میں نے اس سے پوچھا،’’کیا تم کسی بینک کے منیجر تھے؟‘‘

’’ہاں بھائی تھا۔۔۔ وہ رات میرے قیام کی آخری رات تھی کیونکہ پیر کی صبح مجھے بینک میں حاضرہونا تھا۔ پر جب میں نے چاند دریا اور کشتیوں کو دیکھا تو ایسا بے خود ہوا کہ واپس جانے کا خیال میرے ذہن سے اتر گیا۔‘‘

اس کے بعد اس نے اپنے گزشتہ واقعات تفصیل سے بتائے اور کہا کہ وہ جزیرے میں پندرہ سال سے مقیم ہے اور اب اس کی عمر انچاس برس کی تھی۔پہلی بارجب وہ یہاں آیا تو اس نے سوچا کہ ملازمت کا طوق گلے سے اتار دینا چاہیے اور زندگی کے باقی ایام یہاں کی مسحور کن فضاؤں میں گزارنے چاہئیں۔جزیرے کی فضا اور چاند کی روشنی ولسن کے دماغ پر اس قدر غالب آئی کہ اس نے بینک کی ملازمت ترک کردی۔ اگر وہ چند برس اوروہاں رہتا تو اسے معقول پنشن مل جاتی۔ مگر اس نے اس کی مطلق پروا نہ کی۔ البتہ بینک والوں نے اسے اس کی خدمات کے عوض انعام دیا۔ ولسن نے اپنا گھر بیچا اور جزیرے کا رخ کیا۔ اس کے اپنے حساب کے مطابق وہ پچیس برس تک زندگی بسر کرسکتا تھا۔

میری اس سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ بڑا اعتدال پسند ہے۔ اسے کوئی ایسی بات گوارا نہیں جو اس کی آزادی میں خلل ڈالے، اسی وجہ سے عورت بھی اس کو متاثر نہ کرسکی۔ وہ صرف قدرتی مناظر کا پرستار تھا۔ اس کی زندگی کا واحد مقصد صرف اپنے لیے خوشی تلاش کرنا تھا اور اسے یہ نایاب چیز مل گئی تھی۔بہت کم انسان خوشی کی تلاش کرنا جانتے ہیں، میں نہیں کہہ سکتا وہ سمجھدار تھا یا بے وقوف۔ اتنا ضرور ہے کہ اپنی ذات کے ہر پہلو سے بخوبی واقف تھا۔

آخری ملاقات کے بعد میں نے اپنے میزبان دوست سے رخصت چاہی اور اپنے گھر روانہ ہوگیا۔ اس دوران میں جنگ چھڑ گئی اور میں تیرہ برس تک اس جزیرے پر نہ جاسکا۔تیرہ برس کے بعد جب میں جزیرے پر پہنچا تو میرے دوست کی حالت بہت خستہ ہو چکی تھی۔ میں نے ایک ہوٹل میں کمرا کرائے پر لیا ،کھانے پر اپنے دوست سے ولسن کے متعلق بات ہوئی۔

وہ خاموش رہا۔ اس کی یہ خاموشی بڑی افسردہ تھی۔ میں نے بے چین ہو کرپوچھا،’’کہیں اس نے خود کشی تو نہیں کرلی۔‘‘میرے دوست نے آہ بھری،’’یہ درد بھری داستان میں تمہیں کیا سناؤں۔۔۔ ولسن کی اسکیم معقول تھی کہ وہ پچیس برس آرام سے گزار سکتا ہے۔ پر اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ آرام کے پچیس برس گزارنے کے ساتھ ہی اس کی قوتِ ارادی ختم ہو جائے گی۔قوتِ ارادی کو زندہ رکھنے کے لیے کشمکش ضروری ہے۔ ہموار زمین پر چلنے والے پہاڑیوں پر نہیں چڑھ سکتے۔۔۔ اس کا تمام روپیہ ختم ہوگیا۔ ادھار لیتا رہا۔ لیکن یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا۔ قرض خواہوں نے اسے تنگ کرنا شروع کیا۔ آخر ایک روز اس نے اپنی جھونپڑی کے اس کمرے میں جہاں وہ سوتا تھا، بہت سے کوئلے جلائے اور دروازہ بند کردیا۔

صبح جب اس کی نوکرانی ناشتہ تیار کرنے آئی تو اسے بے ہوش پایا۔۔۔ لوگ اسے ہسپتال لے گئے۔ بچ گیا پر اس کا دماغ قریب قریب ماؤف ہوگیا۔۔۔ میں اس سے ملنے گیا لیکن وہ کچھ اس طرح حیران نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا جیسے مجھے پہچان نہیں سکا۔

میں نے اپنے دوست سے پوچھا،’’اب کہاں رہتا ہے؟‘‘

’’گھر بار تو اس کا نیلام ہوگیا ہے۔۔۔ پہاڑیوں پر آوارہ پھرتا رہتا ہے۔میں نے ایک دو مرتبہ اسے پکارا، مگر وہ میری شکل دیکھتے ہی جنگلی ہرنوں کی طرح قلانچیں بھرتا دوڑ گیا۔‘‘

دو تین دن کے بعد جب میں اور میرا دوست چہل قدمی کررہے تھے کہ میرا دوست زور سے پکارا، ’’ولسن!‘‘

میری نگاہوں نے اسے زیتون کے درخت کے پیچھے چھپتےدیکھا ۔ہمارے قریب پہنچنے پر اس نے کوئی حرکت نہ کی، بس ساکت و صامت کھڑا رہا۔ پھر ایکا ایکی جوانوں کے مانند بے تحاشا بھاگنا شروع کردیا۔ اس کے بعد میں نے پھر اس کو کبھی نہ دیکھا۔

گھر واپس آیا تو ایک برس کے بعد میرے دوست کا خط آیا کہ ولسن مرگیا۔ اس کی لاش پہاڑی کے کنارے پڑی تھی۔ چہرے سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ سوتے میں دم نکل گیا ہے۔۔۔ اس رات چودھویں کا چاند تھا۔۔۔ میرا خیال ہے، شاید یہ چودھویں کا چاند ہی اس کی موت کا سبب ہو۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.