319609چوررشید جہاں

رات کے دس بجے کا وقت تھا۔ میں اپنی کلینک میں اکیلی بیٹھی تھی اور ایک میڈیکل جرنل کا مطالعہ کر رہی تھی کہ دروازہ کھلا اور ایک آدمی ایک بچہ لے کر داخل ہوا۔ مجھ کو اپنی نرس پر غصہ آیا کہ یہ دروازہ کھلا چھوڑ گئی۔ میرے مریض دیکھنے کا وقت مدت ہوئی ختم ہو چکا تھا۔ میں نے رکھائی سے کہا۔

’’میرے مریض دیکھنے کا وقت مدت ہوئی ختم ہو چکا۔ یا تو کل صبح لانا، ورنہ کسی دوسرے ڈاکٹر کو دکھا دو۔‘‘

مرد چھوٹے قد کا تو تھا لیکن بدن کسرتی تھا اور بچہ جو گود میں تھا، اس کا سانس بری طرح سے چل رہا تھا اور صاف ظاہر تھا کہ نمونیہ ہو گیا ہے۔ بچہ گردن ڈالے نڈھال تھا ور چل چلاؤ کے قریب معلوم ہوتا تھا۔ مرد نے اکڑ کر کہا۔

’’میم صاحب فیس لے لیجئے اور کیا آپ کو چاہئے۔‘‘

میں فیس کے نام سے شاید دھیمی بھی ہو جاتی پر اس کی اکڑ سے چڑ کر بولی، ’’فیس کے بغیر کوئی ڈاکٹر دیکھتا ہے۔ میں اس وقت مریض نہیں دیکھتی۔ تم کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ وقت ڈاکٹروں کے آرام کا ہوتا ہے۔ دوسرے تمہارا بچہ بہت بیمار ہے۔‘‘

’’جبھی تو آپ کے پاس لایا ہوں۔ ہماری سالی کا بچہ تو اور بھی بیمار تھا آپ کے علاج سے اچھا ہو گیا تھا۔‘‘ اب اس کا لہجہ انکسار انہ تھا۔

میں نے بگڑ کر کہا، ’’جو میرا ہی علاج کرانا تھا تو جلدی آتے۔‘‘

اس کی کنپٹی پر زخم کا ایک گہرا نشان تھا۔ اتنا بدمزاج آدمی ضرور کسی مار پیٹ میں زخمی ہوا ہوگا۔

بچے نے بالکل مردہ آواز میں رونا شروع کیا جس کو دیکھ کر مجھ کو ترس آ گیا اور میں آلہ کو نکال کر کھڑی ہوئی۔ مرد نے فوراً قمیض کے جیب سے دس روپے کا نوٹ نکل کر میز پر رکھ دیا۔ بچے کو دیکھ کر میں نے کہا کہ ’’ایک انجکشن تو میں فوراً لگائے دیتی ہوں۔ چار روز تک برابر یہ انجکشن چار چار گھنٹے پر لگیں گے انتظام کر لینا۔‘‘ اس کی غربت کی طرف نگاہ کر کے میں نے کہا، ’’فیس کی ضرورت نہیں۔ انجکشن کی قیمت میں لے لوں گی۔ باقی کی دوائیں تم بازار سے بنوا لو۔‘‘

اس نے پھر اکڑ کر کہا، ’’صاحب میں خیرات کا علاج نہیں کراتا۔‘‘ اس نے اپنے کرتے کے اندر ہاتھ ڈالا اور ایک انگوچھا نکالا۔ اتنے میں ٹیلیفون کی گھنٹی بجی، میں نے ریسیور اٹھایا اور ساتھ ہی نگاہ اس مرد پر پڑی۔ وہ گرہ کھول رہا تھا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے ایک موٹی سی گڈی نوٹوں کی نکالی۔ کم از کم پانچ سو کے نوٹ ہوں گے اور دس روپیہ میز پر رکھ کر بولا، ’’بس یا اور چاہیے۔‘‘

میں نے ٹیلیفون کا جواب دیا، ’’ہاں، ہاں، ہاں۔‘‘ اس کی طرف مخاطب ہوئی اور پوچھا، ’’تمہارا نام کیا ہے۔‘‘

’’کمن‘‘ یہ کہہ کر ذرا جھجھکا۔

’’کمن‘‘ یہ نام تو کہیں میں نے سنا تھا۔ ہاں یاد آیا۔ داروغہ جب میرے ہاں چوری کی تحقیقات کرنے آیا تھا تب اس نے کمن کا نام لیا تھا اور پولس والے آپس میں بات کرنے میں کمن کی کنپٹی کے نشان کی بات بھی کر رہے تھے۔ میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ وہ لاپرواہی سے ایک طرف کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے انجکشن تیار کرنا شروع کیا اور پوچھا، ’’تمہارا پیشہ کیا ہے؟‘‘

وہ جواب دینے والا ہی تھا کہ میں نے جواب دیا، ’’تانگہ چلاتے تھے نا؟‘‘

’’آپ کو کیسے معلوم؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا، ’’آپ نے مجھے کہاں دیکھا؟ میں تو پہلے کبھی آپ کے ہاں نہیں آیا۔‘‘

میں سرنج میں دوا بھر کر بولی، ’’کمن تم بھولتے ہو۔ ابھی دو مہینے ہوئے ایک رات کے درمیان تم آئے تھے اور میرا سارا گھر صاف کر کے چل دیئے۔ تم چوری کیوں کرتے ہو؟‘‘

اس نے آنکھ میں آنکھ ڈال کر برابری سے جواب دیا، ’’میم صاحب اپنا اپنا پیشہ ہے۔‘‘

اب میری باری حیران ہونے کی تھی۔

’’پریہ تو بتایئے کہ میرا نام کس نے آپ کو بتایا؟‘‘

’’داروغہ جو تحقیقات کرنے آئے تھے وہ لوگ آپس میں تمہارے کارناموں کی باتیں کہہ رہے تھے۔ میں نے بھی سن لیا اور تمہارے ہاں تلاشی بھی تو ہوئی تھی۔‘‘

وہ مغلظات گالیاں پولس والوں کو دینے لگا۔

’’یہ سارے پولس والے مادر۔۔۔ پہلے اپنا حصہ وصول کر لیتے ہیں پھر کہیں ہمارا حصہ ہم کو ملتا ہے۔ بہن! ہم کو یہ بدنام کرتے ہیں۔ چور سے کہیں چوری کر اور شاہ سے کہیں ترا گھر لٹتا ہے۔ بیٹی! داروغہ کو میں سمجھ لوں گا۔میرے گھر میم صاحب سال میں سینکڑوں بار دوڑ آتی ہے۔ پر یہی پولیس والے مجھے پہلے سے خبر کر دیتے ہیں۔ سب سالوں کے مہینے نہیں باندھ رکھے ہیں میں نے؟ پانچ سال سے برابر وارنٹ میرے نام جاری رہتا ہے۔ پر خدا کا فضل ہے کہ ابھی تک تو پکڑا نہیں گیا۔‘‘ اس نے شیخی کے انداز میں مجھے اپنا حال بتایا۔

میں نے انجکشن لگانے کو بچے کی ٹانگ پکڑی۔ پر وہ بڑبڑاتا ہی رہا۔

’’خود سالے آکر بتا جاتے ہیں کہ تلاشی لینے آ رہے ہیں۔ میم صاحب، پولیس اگر ہمارا ساتھ نہ دے تو ہم دو دن کسی علاقہ میں ٹک نہیں سکتے اور پھر ہمیں کو بدنام کرتے ہیں۔‘‘

’’دیکھو بچے کی ٹانگ مت ہلنے دو۔‘‘

’’سالے آدھے سے زیادہ تو خود کھا جاتے ہیں۔ ہم کو بچتا ہی کیا ہے۔ ساری محنت ہم کریں۔ پکڑے جائیں تو ہم جیل کی چکی پیسیں تو ہم۔ یہ مادر۔۔۔ تو گھر بیٹھے مفت کا مال اڑاتے ہیں۔

اس کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا اور بچے کے رونے کی بھی جو دھیمے دھیمے سسک رہا تھا، اس نے پروانہ کی۔ میں نے بچے کو میز پر لٹاتھپکنا شروع کیا۔ اب اس میں اور مجھ میں بے تکلفی ہوتی جارہی تھی اور میں اس سے باتیں کرنا چاہتی تھی۔ میں پہلی بار ایک چور سے اور وہ بھی ایسا چار جو میرا اپنا گھر صاف کر چکا تھا ،ملی تھی۔ میں نے کہا، ’’کمن تم چوری کرتے ہو۔ تم کو ترس نہیں آیا۔ میرا گھر تو تم نے بالکل صاف کر دیا۔ پہننے کو کپڑا نہیں رہا۔ عینکوں کا تم کو کیا مل جاتا ہوتا۔ بھلا بتاؤ میری عینک بھی تم لے گئے؟‘‘

’’کوئی چیز بے کار نہیں جاتی۔‘‘

میں نے اس کی طرف حیرت سے دیکھ کر کہا اور میری مری ہوئی ماں کی نشانی ایک دو پٹہ رکھا تھا وہ بھی تم لے گئے؟

’’اس کو پکڑوا دوں؟‘‘ میرے دل میں آیا۔

’’کون سا؟‘‘

’’سفید جالی کا کڑھا ہوتا تھا۔ تم کو کیا یاد ہوگا۔ نہ معلوم جب سے اب تک کتنی چوریاں کر چکے ہو گے۔

میں اس کو باتوں میں لگانے کی کوشش کر رہی تھی، ’’تم نے چوری کیسے شروع کی؟‘‘

کیا میں بجلی کا بٹن دبا کر نوکروں کو بلا لوں،

جیسے سب کرتے ہیں، اپنے استاد سے سیکھی۔

’’استاد سے؟ تمہارے ہاں بھی استاد ہوتے ہیں؟‘‘

’’اور کیا۔ آپ نے ڈاکٹری کیسے سیکھی؟‘‘

’’میں نے تو کالج میں پڑھا تھا۔‘‘ گھنٹی بجاؤں یا نہیں۔

’’ہمارا بھی تو کالج ہوتا ہے۔‘‘ وہ مسکرایا، ’’میرا کالج جیل خانہ تھا۔ ایک مار پیٹ میں چھ مہینے کی جیل ہو گئی تھی۔ وہیں استاد سے ملاقات ہوئی۔‘‘

بچہ پھر رونے لگا اور اسی وقت دروازہ کھلا اور میرا چھوٹا بھائی اپنی فوجی وردی میں داخل ہوا۔جوان لڑکا تھا۔ کمن سے کہیں زیادہ طاقتور تھا۔ اس کے پاس ریوالور بھی لٹک رہا تھا۔ کمن اس کو دیکھ کر چونکا اور پھر جلدی سے نسخہ اٹھا کر چلنے لگا۔ پکڑواؤں یا نہ پکڑواؤں۔ پکڑواؤں یا نہ پکڑواؤں؟ میں نے جلدی جلدی سوچا۔ میں ابھی فیصلہ نہ کر سکی تھی کہ وہ باہر چلا گیا۔

’’آپا کیا بات ہے۔ پریشان کیوں ہو؟‘‘

’’تمہیں معلوم ہے یہ کون تھا؟ وہ ،وہ شخص تھا جس نے میرے ہاں چوری کی تھی۔‘‘

’’تمہیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘

’’میری اس سے باتیں ہوئیں۔‘‘

’’باتیں ہوئیں اور تم نے اس کو جانے دیا۔‘‘ یہ کہہ کر میرا بھائی دروازے کی طرف لپکا اور باہر نکل کر ادھر ادھر دیکھا۔ سٹرک صاف پڑی تھی وہ چند قدم ایک طرف کو بھاگا اور سٹرک کے موڑ پر جا کر بھی دیکھا۔ وہاں بھی کوئی نہ تھا۔

اندر آ کر غصہ سے کہنے لگا، ’’آپ تم بھی کمال کرتی ہو؟ چور تم کو ملا اور تم نے چھوڑ دیا۔ یہ گورکھا کس واسطے نوکر رکھا ہے؟ اس کو کیوں نہ بلایا اور جب میں آگیا تھا جب بھی خاموش رہیں۔‘‘ ریوالور پر ہاتھ پھیر کر کہا، ’’میں اس حرامزادے کو کبھی نہ جانے دیتا۔‘‘ میرا بھائی ایک مشہور شکاری بھی ہے۔ اس وقت اس کے چہرے پر وہی کھسیاہٹ تھی جو شکار ہاتھ سے نکل جانے پر ہوا کرتی ہے۔

’’بھلا کہیں دنیا میں سنا ہے کہ آدمی چور کو یوں نکل جانے دے۔‘‘

میں خاموش تھی۔

’’آپ بہت جذباتی ہیں، بچے کو دیکھ کر پگھل گئی ہوں گی۔ لو ذرا سنو اس کی اہمیت کا تو اندازہ ہو کہ بیس روپیہ یہاں چھوڑ گیا۔ یہ بھی چوری کے ہوں گے۔‘‘

’’اس کے پاس تو پانچ سو چھ سو کے نوٹ تھے۔‘‘

’’واللہ آپ بڑی ہیں تو ہوا کریں، لیکن ہیں بہت بے وقوف!‘‘

یہ بات اب میرے ملنے والوں کو معلوم ہو چکی ہے کہ جس نے میرے ہاں چوری کہ تھی وہ اپنے بچے کا علاج کروانے آیا تھا اور میں اس کو پکڑوا سکتی تھی لیکن جانے دیا۔ سب میرا مذاق اڑاتے تھے۔ لیکن کوئی میری دماغی کشمکش کو نہ سمجھتا تھا۔ آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں نے غلطی کی تھی یا نہیں۔

میرے ایک دوست پولیس افسر ہیں۔ جب انہوںں نے سنا تو کہا کہ ’’معلوم ہے آپ کو آپ نے قانوناً بھی غلطی کی ہے۔ جس آدمی کے نام پر وارنٹ ہو اس کو نہ پکڑوانا جرم ہے۔‘‘

میں سوچتی ہوں اور ان چوروں کا کیا ہوگا جن کے نام پر نہ وارنٹ ہیں اور نہ کبھی ہوں گے۔ چوری کی بھی تو کئی قسمیں ہیں۔ اٹھائی گیری، جیب کتری، نقب زنی، ڈاکہ مارنا، چور بازاری، دوسروں کی محنت کے نفع کو لے کر اپنا گھر بھر لینا اور غیر ملکوں کو ہضم کر جانا۔ یہ سب چوری میں داخل نہیں؟

لوگوں کے کہنے سننے کی تو مجھ کو پرواہ نہ تھی لیکن در اصل جب ہر طرف مجھ کو بے وقوف سمجھ کر میرا مذاق اڑنے لگا تو میرے ضمیر کے اندر ایک کرید پیدا ہو گئی۔ کیا سچ مچ اس چور کو نہ پکڑوا کر میں نے کوئی اخلاقی گناہ کیا تھا؟

میں اپنے شہر کی ایک باشندہ ہوں، کچھ شہری ذمہ داریاں مجھ پر عائد ہیں کیا اس چور کو نہ پکڑوا کر میں نے کوئی شہری جرم کیا ہے۔

پھر میری نظر چاروں طرف دوڑنے لگی۔ میں نے دیکھا کہ بڑے بڑے چور بگلا بھگت بنے گھومتے ہیں۔ بڑے بڑے محلوں میں رہتے ہیں، ہوائی جہاز میں اڑتے ہیں اور بڑے بڑے براعظم کھائے بیٹھے ہیں یا کھانے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور اپنی حفاظت کے لئے جیسے کمن پولیس تو صرف رشوت ہی دیتا تھا، یہ اس سے بھی آگے بڑھے ہوئے تھے۔ سارے ملک کی پولیس و فوج ان کی تنخواہ دار تھی۔ کمن 500، 600 چوری کے نوٹوں پر سر اکٹرا کر اور برابر کا ہو کر بات کرتا تھا۔ یہ صرف اکڑتے ہی نہیں بلکہ اوپر سے بیٹھ کر حکم بھی دیتے ہیں۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.