چچا سام کے نام ایک خط

چچا سام کے نام ایک خط (1954)
by سعادت حسن منٹو
319918چچا سام کے نام ایک خط1954سعادت حسن منٹو

۳۱ لکشمی مینشنز ہال روڈ، لاہور
مورخہ ۱۶ دسمبر ۱۹۵۱ء

چچا جان، السلام علیکم!

یہ خط آپ کے پاکستانی بھتیجے کی طرف سے ہے، جسے آپ نہیں جانتے۔ جسے آپ کی سات آزادیوں کی مملکت میں شاید کوئی بھی نہیں جانتا۔ میرا ملک ہندوستان سے کٹ کر کیوں بنا، کیسے آزاد ہوا، یہ تو آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں خط لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں، کیونکہ جس طرح میرا ملک کٹ کر آزاد ہوا اسی طرح میں کٹ کر آزاد ہوا ہوں اور چچا جان یہ بات تو آپ جیسے ہمہ دان عالم سے چھپی ہوئی نہیں ہونی چا ہئے کہ جس پرندے کو پر کاٹ کر آزاد کیا جائے گا اس کی آزادی کیسی ہوگی۔۔۔ خیر اس قصے کو چھوڑیئے۔

میرا نام سعادت حسن منٹو ہے، میں ایک ایسی جگہ پیدا ہوا تھا جو اب ہندوستان میں ہے میری ماں وہاں دفن ہے، میرا باپ وہاں دفن ہے، میرا پہلا بچہ بھی اسی زمین میں سو رہا ہے لیکن اب وہ میرا وطن نہیں، میرا وطن اب پاکستان ہے جو میں نے انگریزوں کے غلام ہونے کی حیثیت میں پانچ چھ مرتبہ دیکھا تھا۔ میں پہلے سارے ہندوستان کا ایک بڑا افسانہ نگار تھا۔ اب پاکستان کا ایک بڑا افسانہ نگار ہوں۔ میرے افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں، لوگ مجھے عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ سالم ہندوستان میں مجھ پر تین مقدمے چلے تھے۔ یہاں پاکستان میں ایک، لیکن اسے ابھی بنے کے برس ہوئے ہیں۔

انگریزوں کی حکومت بھی مجھے فحش نگار سمجھتی تھی۔ میری اپنی حکومت کا بھی میرے متعلق یہی خیال ہے۔ انگریزوں کی حکومت نے مجھے چھوڑ دیا تھا لیکن میری اپنی حکومت مجھے چھوڑتی نظر نہیں آتی۔ عدالت ماتحت نے مجھے تین ماہ قید بامشقت اور تین سو روپے جرمانے کی سزا دی تھی۔ سیشن میں اپیل کرنے پر میں بری ہو گیا، مگر میری حکومت سمجھتی ہے کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے، چنانچہ اب اس نے ہائی کورٹ میں اپیل کی ہے کہ سیشن کے فیصلے پر نظرثانی کرے اور مجھے قرار واقعی سزا دے۔۔۔ دیکھئے عدالت عالیہ کیا فیصلہ دیتی ہے۔ میرا ملک آپ کا ملک نہیں۔ اس کا مجھے افسوس ہے، اگر عدالت عالیہ مجھے سزا دے دے تو میرے ملک میں ایسا کوئی پرچہ نہیں جو میری تصویر چھاپ سکے۔ میرے تمام مقدموں کی روداد کی تفصیل چھاپ سکے۔

میرا ملک بہت غریب ہے۔ اس کے پاس آرٹ پیپر نہیں ہے، اس کے پاس اچھے چھاپے خانے نہیں ہیں۔ اس کی غربت کا سب بڑا ثبوت میں ہوں۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا چچا جان بیس بائیس کتابوں کا مصنف ہونے کے بعد بھی میرے پاس رہنے کے لئے اپنا مکان نہیں اور یہ سن کر تو آپ حیرت میں غرق ہو جائیں گے کہ میرے پاس سواری کے لئے کوئی پیکارڈ ہے نہ ڈوج، سیکنڈ ہینڈ موٹر کار بھی نہیں۔ مجھے کہیں جانا ہو تو سائیکل کرائے پر لیتا ہوں، اخبار میں اگر میرا کوئی مضمون چھب جائے اور سات روپے فی کالم کے حساب سے مجھے بیس پچیس روپے مل جائیں تو میں تانگے پر بیٹھتا ہوں اور اپنے یہاں کی کشید کردہ شراب بھی پیتا ہوں، یہ ایسی شراب ہے کہ اگر آپ کے ملک میں کشید کی جائے تو آپ اس ڈسٹلری کو ایٹم بم سے اڑا دیں کیونکہ ایک برس کے اندر اندر ہی یہ خانہ خراب انسان کو نیست و نابود کر دیتی ہے۔

میں کہاں کا کہاں پہنچ گیا۔ اصل میں مجھے بھائی جان ارسکاٹن کولڈول کو آپ کے ذریعے سے سلام بھیجنا تھا۔ ان کو تو خیر آپ جانتے ہی ہوں گے۔ ان کے ایک ناول ’’گوڈز لٹل ایکٹر‘‘ پر آپ مقدمہ چلا چکے ہیں۔ جرم وہی تھا جو اکثر یہاں میرا ہوتا ہے یعنی فحاشی۔ یقین جانئے چچا جان! مجھے بڑی حیرت ہوئی تھی، جب میں نے سنا تھا کہ ان کے ناول پر سات آزادیوں کے ملک میں فحاشی کے الزام میں مقدمہ چلا ہے۔ آپ کے یہاں تو ہر چیز ننگی ہے۔ آپ تو ہر چیز کا چھلکا اتار کر الماریوں میں سجا رکھتے ہیں۔ وہ پھل ہو یا عورت، مشین ہو یا جانور، کتاب ہو یا کیلنڈر، آپ تو ننگ کے بادشاہ ہیں۔ میرا خیال تھا آپ کی مملکت میں طہارت کا نام فحاشی ہوگا مگر چچا جان آپ نے یہ کیا غضب کیا کہ بھائی جان ارسکاٹن کولڈول پر مقدمہ چلا دیا۔

میں اس صدمے سے متاثر ہو کر اپنے ملک کی کشید کردہ شراب زیادہ مقدار میں پی کر یقیناً مر گیا ہوتا، اگر میں نے فوراً ہی اس مقدمے کا فیصلہ نہ پڑھ لیا ہوتا۔ یہ میرے ملک کی بدقسمتی تو ہوئی کہ ایک انسان محض خس کم جہاں پاک ہونے سے رہ گیا، لیکن پھر میں آپ کو یہ خط کیسے لکھتا۔ ویسے میں بڑا سعادت مند ہوں۔ مجھے اپنے ملک سے پیار ہے۔ میں انشاء اللہ تھوڑے ہی دنوں میں مر جاؤں گا، اگر خود نہیں مروں گا تو خود بخود مر جاؤں گا، کیونکہ جہاں آٹا روپے کا پونے تین سیر ملتا ہو، وہاں بڑا ہی بے غیرت انسان ہوگا جو زندگی کے روایتی چار دن گزار سکے۔

ہاں، تو میں نے مقدمے کا فیصلہ پڑھا اور میں نے خانہ ساز شراب زیادہ مقدار میں پی کر خودکشی کا ارادہ ترک کر دیا۔ بھئی چچا جان کچھ بھی ہو، آپ کے ہاں ہر چیز ملمع چڑھی ہے، لیکن وہ جج جس نے بھائی جان ارسکاٹن کو فحاشی کے جرم میں بری کیا، اس کے دماغ پر یقیناً ملمع کا جھول نہیں تھا۔۔۔ اگر یہ جج (افسوس ہے کہ میں ان کا نام نہیں جانتا) زندہ ہیں تو ان کو میرا عقیدت مندانہ سلام ضرور پہنچا دیجیئے۔ ان کے فیصلے کی یہ آخری سطور ان کے دماغ کی وسعت کا پتہ دیتی ہیں،

’’میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ ایسی کتابوں کو سختی سے دبا دینے پر پڑھنے والوں میں خواہ مخواہ تجسس اور استعجاب پیدا ہوتا ہے جو انہیں شہوت پسندی کی ٹوہ لگانے کی طرف مائل کر دیتا ہے حالانکہ اصل کتاب کا یہ منشاء نہیں ہے، مجھے پورا یقین ہے کہ اس کتاب میں مصنف نے صرف وہی چیز منتخب کی ہے جسے وہ امریکی زندگی کے کسی مخصوص طبقے کے متعلق سچا خیال کرتا ہے میری رائے میں سچائی کو ادب کے لئے ہمیشہ جائز قرار دینا چاہیئے۔‘‘

میں نے عدالت ماتحت سے یہی کہا تھا، لیکن اس نے مجھے تین ماہ قید بامشقت اور تین سو روپے کی سزا دے دی۔ اس کی رائے یہ تھی کہ سچائی کو ادب سے ہمیشہ دور رکھنا چا ہیئے۔۔۔ اپنی اپنی رائے ہے۔ میں تین ماہ قید بامشقت کاٹنے کے لئے تیار ہوں، لیکن یہ تین سو روپے کا جرمانہ مجھ سے ادا نہیں ہوگا، چچا جان آپ نہیں جانتے میں بہت غریب ہوں۔۔۔ مشقت کا تو میں عادی ہوں لیکن روپوں کا عادی نہیں، میری عمر انتالیس برس کے قریب ہے اور یہ سارا زمانہ مشقت ہی میں گزرا ہے، آپ ذرا غور تو فرمایئے کہ اتنا بڑا مصنف ہونے پر بھی میرے پاس کوئی پیکارڈ نہیں۔۔۔! میں غریب ہوں، اس لئے کہ میرا ملک غریب ہے، مجھے تو پھر دو وقت کی روٹی کسی نہ کسی حیلے مل جاتی ہے، مگر میرے بھائی کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں یہ بھی نصیب نہیں ہوتی۔

میرا ملک غریب ہے۔۔۔ جاہل ہے، کیوں۔۔۔؟ یہ تو آپ کو بخوبی معلوم ہے چچا جان، یہ آپ کے اور آپ کے بھائی جان بل کے مشترکہ ساز کا ایسا تار ہے جسے میں چھیڑنا نہیں چاہتا۔ اس لئے کہ آپ کی سماعت پر گراں گزرے گا۔ میں یہ خط ایک برخودار کی حیثیت سے لکھ رہا ہوں اس لئے مجھے اول تا آخر برخوردار ہی رہنا چا ہیئے۔ آپ ضرور پوچھیں گے اور بڑی حیرت سے پوچھیں گے کہ تمہارا ملک غریب کیونکر ہے جب کہ میرے ملک سے اتنی پیکارڈیں، اتنی بیوکیں۔۔۔ میکس فیکٹر کا اتنا سامان جاتا ہے، یہ سب ٹھیک ہے چچا جان، مگر میں آپ کے اس سوال کا جواب نہیں دوں گا۔ اس لئے آپ اس کا جواب اپنے دل سے پوچھ سکتے ہیں (اگر آپ نے اپنے قابل سرجنوں سے کہہ کر اسے اپنے پہلو سے نکلوا نہ ڈالا ہو۔) میرے ملک کی وہ آبادی جو پیکارڈوں اور بیوکوں پر سوار ہوتی ہے، میرا ملک نہیں۔۔۔ میرا ملک وہ ہے جس میں مجھ ایسے اور مجھ سے بدتر مفلس بستے ہیں۔

یہ بڑی تلخ باتیں ہیں۔ ہمارے یہاں شکر کم ہے، ورنہ میں ان پر چڑھا کہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا۔ اس کو بھی چھوڑیئے۔ بات در اصل یہ ہے کہ میں نے حال ہی میں آپ کے دوست ملک کے ایک ادیب EVELYN WAUGH کی تصنیف THE LOVED ONES پڑھی ہے، میں اس سے اتنا متاثر ہوا کہ آپ کو یہ خط لکھنے بیٹھ گیا۔ آپ کے ملک کی انفرادیت کا میں یوں بھی معترف تھا، مگر یہ کتاب پڑھ کر تو میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔ جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی۔۔۔ واہ وا، واہ وا، واہ وا۔ چچا جان! وا اللہ مزا آ گیا۔ کیسے زندہ دل لوگ آپ کے ملک میں بستے ہیں۔

ایوی لن وا ہمیں بتاتا ہے کہ آپ کے کیلی فورنیا میں مردوں یعنی بچھڑے ہوئے عزیزوں پر بھی ملمع کاری کی جا سکتی ہے اور اس کے لئے بڑے بڑے ادارے موجود ہیں۔ مرنے والے عزیز کی شکل مکروہ ہو تو ان میں سے کسی میں بھیج دیئے، فارم موجود ہے۔ اس میں اپنی خواہشات درج کر دیجئے۔ کام حسب منشا ہوگا۔ یعنی مردے کو آپ جتنا خوبصورت بنوانا چاہیں، دام دے کر بنوا سکتے ہیں، اچھے سے اچھا ماہر موجود ہے، جو مردے کے جبڑے کا آپریشن کر کے اس پر میٹھی سے میٹھی مسکراہٹ ثبت کر سکتا ہے۔ آنکھوں میں روشنی پیدا کی جا سکتی ہے، ماتھے پر حسب ضرورت نور پیدا کیا جا سکتا ہے اور یہ سب کام ایسی چابکدستی سے ہوتا ہے کہ قبر میں منکر نکیر بھی دھوکہ کھا جائیں۔ بھئی خدا قسم چچا جان، آپ کے ملک کا کوئی جواب پیدا نہیں کر سکتا۔

زندوں پر آپریشن سنا تھا، پلاسٹک سرجری سے زندہ آدمیوں کی شکل سنواری جا سکتی ہے۔ اس کے متعلق بھی یہاں کچھ چرچے ہوئے تھے۔ مگر یہ نہیں سنا تھا کہ آپ مردوں تک کی شکل سنوار دیتے ہیں۔ یہاں آپ کے ملک کا ایک سیاح آیا تھا۔ چند احباب نے مجھ سے ان کا تعارف کرایا۔ اس وقت میں بھائی ایوی لن وا کی کتاب پڑھ چکا تھا۔ میں نے ان سے ان کے ملک کی تعریف کی اور یہ شعر پڑھا،

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے

سیاح صاحب میرا مطلب نہ سمجھے مگر حقیقت یہ ہے چچا جان کہ ہم نے اپنی صورت کو بگاڑ رکھا ہے۔ اتنا مسخ کر رکھا ہے کہ اب وہ پہچانی بھی نہیں جاتی۔ اپنے آپ سے بھی نہیں۔۔۔ اور ایک آپ ہیں کہ اپنے مکروہ صورت مردوں تک کی شکل سنوار دیتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ اس دنیا کے تخت پر ایک صرف آپ کی قوم ہی کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔ بخدا باقی سب جھک مار رہے ہیں۔ ہماری زبان اردو کا ایک شاعر غالب ہوا ہے۔ اس نے آج سے قریب قریب ایک صدی پہلے کہا تھا،

ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا نہ کہیں جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا

غریب کو زندگی میں اپنی رسوائی کا ڈر نہیں تھا، کیونکہ وہ اول تا آخر رسوائے زمانہ رہی۔ اس کو خوف اس بات کا تھا کہ بعداز مرگ رسوائی ہوگی۔ آدمی وضع دار تھا۔ خوف نہیں بلکہ یقین تھا اسی لئے اس نے غرق دریا ہونے کی خواہش کی کہ جنازہ اٹھے نہ مزار بنے۔ کاش وہ آپ کے ملک میں پیدا ہوا ہوتا۔ آپ اس کا بڑی شان و شوکت سے جنازہ اٹھاتے اور اس کا مزار سکائی سکریپر کی صورت میں بناتے اور اگر اسی کی خواہش پر عمل کرتے تو شیشے کا ایک حوض تیار کرتے جس میں اس کی لاش رہتی دنیا تک غرق رہتی اور چڑیا گھر میں لوگ اسے جا جا کر دیکھتے۔

بھائی ایوی لن وا بتاتا ہے کہ وہاں مردہ انسانوں ہی کے لئے نہیں، مردہ حیوانوں کی نوک پلک درست کرنے والے ادارے بھی موجود ہیں۔ حادثے میں اگر کسی کتے کی دم کٹ جاتی ہے تو دوسری لگا دی جاتی ہے۔ مرحوم کی شکل و صورت میں اس کی زندگی میں جتنے عیب تھے، اس کی موت کے بعد چابک دست ہاتھ درست کر دیتے ہیں۔ اسے شان و شوکت کے ساتھ کفنا دفنا دیا جاتا ہے۔ اس کی تربت پر پھول چڑھانے کا انتظام بھی کر دیا جاتا ہے اور ہر سال جس روز کسی کا پالتو مرا ہو، اس ادارے کی طرف سے ایک کارڈ بھیج دیا جاتا ہے جس پر کچھ اس قسم کی عبارت ہوتی ہے، ’’جنت میں آپ کا ٹیمی یا جفی آپ کی یاد میں اپنی دم یا کان ہلا رہا ہے۔‘‘

ہم سے تو آپ کے ملک کے کتے ہی اچھے۔ یہاں آج مرے کل دوسرا دن۔ کسی کا کوئی عزیز مرتا ہے تو اس غریب پر ایک آفت ٹوٹ پڑتی ہے اور وہ دل ہی دل میں چلاتا ہے، ’’کمبخت یہ کیوں مرا۔۔۔ مجھے ہی موت آ گئی ہوتی!‘‘ سچ تو یہ ہے چچا جان ہمیں مرنے کا سلیقہ آتا ہے نہ جینے کا۔ آپ کے ملک میں ایک صاحب نے کمال کر دیا۔ ان کو یقین نہیں تھا کہ ان کی موت کے بعد ان کا جنازہ سلیقے اور قرینے سے اٹھے گا، چنانچہ انہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنے کفن دفن کی بہار دیکھ لی۔۔۔ یہ ان کا حق تھا۔ وہ بڑی شائستگی، نفاست اور امارت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ ہر چیز ان کے منشا کے مطابق ہوتی تھی۔ ہو سکتا ہے موت کے بعد ان کا جنازہ اٹھانے میں کسی سے کوئی کوتاہی ہو جاتی، بہت اچھا کیا جو انہوں نے زندگی ہی میں اپنی موت کی آرائش و زیبائش دیکھ لی۔ مرنے کے بعد ہوتا رہے جو ہوتا ہے۔

تازہ ’’لائف‘‘ (مورخہ ۵ نومبر ۱۹۵۱ء انٹرنیشنل ایڈیشن) دیکھا۔ واللہ آپ لوگوں کی زندگی کا ایک اور زندگی آموز پہلو آنکھوں کے سامنے روشن ہوا۔ دو پورے صفحوں پر تصویروں کے ساتھ آپ کے ملک کے مشہور و معروف ’’گینگسٹر‘‘ کے جنازے کی پوری روداد مرقوم تھی۔ دلی موریٹی (خدا اسے کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے) کی شبیہ دیکھی۔ اس کا وہ عالیشان گھر دیکھا جو اس نے حال ہی میں پچپن ہزار ڈالر میں فروخت کیا تھا اور اس کی وہ پانچ ایکڑ کی سٹیٹ بھی دیکھی جہاں وہ دنیا کے ہنگاموں سے الگ ہو کر آرام اور چین کی زندگی بسر کرنا چاہتا تھا اور مرحوم کا وہ فوٹو بھی دیکھا جس میں وہ بستر پر ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کئے لیٹا ہے۔ اور اس کا پانچ ہزار ڈالر کا تابوت اور اس کے جنازے کا جلوس جو پھولوں سے لدی پھندی، گیارہ بڑی بڑی لمو زینوں اور پچھتر کاروں پر مشتمل ہے۔۔۔ اللہ واحد شاہد ہے۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

خاکم بدہن! اگر آپ انتقال فرما جائیں تو خدا آپ کو دلی موریٹی سے زیادہ عزت اور شان عنایت فرمائے۔۔۔ یہ پاکستان کے ایک غریب مصنف کی دلی دعا ہے۔ جس کے پاس سواری کے لئے ایک ٹوٹی پھوٹی سائیکل بھی نہیں۔ وہ آپ سے ایک ایسی استدعا بھی کرتا ہے کہ کیوں نہ آپ اپنے ملک کے دور اندیش آدمی کی طرح اپنی زندگی ہی میں اپنا جنازہ اٹھتا دیکھ لیں۔ بندہ بشر ہے، ہو سکتا ہے کسی سے بھول چوک ہو جائے۔ ہو سکتا ہے آپ کے چہرے کا کوئی خط سنورنے سے رہ جائے اور آپ کی روح کی تکلیف پہنچے۔۔۔ مگر بہت ممکن ہے آپ یہ خط پہنچنے سے پہلے ہی اپنا جنازہ اپنی حسب منشاء عظیم الشان دھوم دھام سے اٹھوا کے دیکھ چکے ہوں۔۔۔ اس لئے کہ آپ مجھ سے کہیں زیادہ صاحب فہم و ادراک ہیں اور میرے چچا ہیں۔

بھائی جان ارسکاٹن کولڈول کو سلام اور جج کو بھی جنہوں نے ان کو فحاشی کے جرم سے بری کیا تھا۔ کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو اسے معاف فرمائیں۔

زیادہ حد ادب
آپ کا مفلس بھتیجا
سعادت حسن منٹو سکنہ پاکستان

(یہ خط پوسٹیج اسٹیمپ خرید نہ سکنے کے باعث پوسٹ نہ کیا جا سکا)


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.