چچا منٹو کے نام ایک بھتیجے کا خط

چچا منٹو کے نام ایک بھتیجے کا خط (1954)
by سعادت حسن منٹو
319909چچا منٹو کے نام ایک بھتیجے کا خط1954سعادت حسن منٹو

۱۱ مئی ۱۹۵۲ء

چچا منٹو صاحب

السلام علیکم۔ یہ خط اس بھتیجے کی طرف سے ہے جسے آپ نہیں جانتے اور نہ جسے آپ نے جاننے کی کبھی کوشش کی۔ جسے پاکستان میں شاید کوئی بھی نہیں جانتا اور وہ اپنے کام سے بچے ہوئے اس تھوڑے سے وقت میں آپ جیسے بلند پایہ ادیب کو خط لکھنے کی جسارت کر رہا ہے۔

میرے ملک کا حال نہ پوچھئے، یہ ایک کہانی ہے لیکن المناک، ایک نغمہ ہے لیکن پرسوز، آپ نہیں جانتے، میں بتاؤں گا بھی نہیں۔ میرے بتانے پر شاید آپ پھر۔۔۔ اپنے دیسی شراب والے پہلے۔۔۔ اور شاید آخری بھی، خودکشی کے طریقے پر اتر آئیں اور حکومت اپنا تین صد روپیہ جرمانہ آپ کی قبر سے وصول کرے۔ آپ تو بس اتنا سمجھ لیں کہ دو بلیاں ایک بندر اور ایک روٹی والا معاملہ ہے۔ یہ کہانی آپ نے دوسری جماعت میں ضرور پڑھی ہوگی، لیکن میں بضد ہوں کہ اسے ایک دفعہ میری زبانی بھی سنیئے۔

یہ اس بوڑھے داستان گو (جو غالباً ولی نعمت اللہ نہیں تھا) ہر گز معلوم نہ تھا کہ جنہیں روٹی ملی تھی وہ بلے تھے یا بلیاں۔ روٹی انہیں کہاں سے ملی تھی۔ بس داستان یوں شروع ہوتی ہے کہ وہ دونوں دبلی پتلی۔۔۔ بی بلیاں یا بلے آپس میں خشمناک اور بندر سے مرعوب تھیں اور وہ روٹی لے کر لڑتی جھگڑتی میاں بندر کے ہاں پہنچیں۔ چچا جان پہنچ جائیں گے۔ روٹی دیکھ کر بندر کے منہ میں پانی ہی بھر آیا۔ اس کے دل میں آئی یہ ترنوالہ چھین کر نو دو گیارہ ہو جائے لیکن وہ اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے کچھ سوچ کر رک گیا اور چہرے پر متانت اور سنجیدگی کے آثار پیدا کر کے بولا، ’’پدھاریئے۔۔۔ تشریف رکھیئے!‘‘ بلیوں کو کرسیوں پر بٹھایا اور بیرے کو چائے لانے کا آرڈر دیا۔ بلیاں تو بس رام ہو گئیں اور بولیں، ’’ابا میاں۔۔۔ ہمیں ایک تنازعہ مافیہ آپ تک لے آیا ہے، ہم آپ کو ایک تکلیف دینے آئی ہیں۔‘‘

بندر میاں نے چائے کی پیالیاں پیش کرتے ہوئے کہا، ’’برخوردار! ایسا نہ کہو، مجھے دکھ ہوتا ہے۔ آخر بزرگ لوگ ہوتے کس وقت کے لئے ہیں، بیٹھو، تھوڑا آرام کرو۔ تسلی سے تمام واقعہ بتاؤ تاکہ میں اس پر غور کر سکوں۔‘‘ بلیوں نے چائے کے گرم گھونٹ حلق سے نیچے اتارتے ہوئے تمام واقعہ من و عن کہہ سنایا جسے بوڑھے فیصل نے غور سے سنا۔ پھر پوچھا، ’’اب تم کیا چاہتی ہو۔۔۔؟‘‘ بلیوں نے ایک دوسرے کو مشکوک نظروں سے گھور کر کہا، ’’آپ کا ناطق فیصلہ!‘‘

’’ہوں۔۔۔‘‘ بندر نے مکاری سے آنکھیں بند کر کے کہا، ’’تھوڑا سوچنے دو۔ جلدی کا فیصلہ اچھا نہیں ہوتا۔ یا شاید پھر مجھے اجلاس بلانا پڑے گا۔‘‘ بلیاں کچھ عرصے تک وہیں ٹھہریں، کچھ دنوں کے بعد استدعا کی کہ ’’ابا میاں، آپ روٹی اپنے پاس رکھیں۔ ہمیں اجازت دیں، جو فیصلہ آپ کا ہوگا وہ ہمیں منظور۔‘‘

’’اجی اتنی جلدی بھی کیا ہے۔‘‘ بندر نے آنکھیں جھپکاتے ہوئے کہا، ’’کچھ روز اور ٹھہریئے۔‘‘ بلیوں نے کہا، ’’نہیں ابا میاں، ہمیں اور بہت سے کام کرنے ہیں۔ ہمارے بچے۔۔۔ جانئے آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہوں گے۔ اس لئے اجازت دیجئے۔‘‘ بندر دور دور تک رومال ہلا ہلا کر الوداعی اشارے کرتا رہا۔

چچا جان! اس روٹی کے گرد کئی بندر گھومتے ہیں، اب ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کون سا طریقہ اختیار کریں جس سے روٹی ہضم ہو جائے اور بلیوں کو جل دیا جا سکے اور نادان بلیاں ایک دوسرے سے خائف بندر سے یہ امید لگائے بیٹھی ہیں کہ شائد پوری کی پوری روٹی ہمیں مل جائے۔ آپ پوچھیں گے کہ میں یہ خط آپ کو کیوں لکھ رہا ہوں۔۔۔ تو عرض کیا گیڈر کی جب موت آتی ہے تو اس کا گاؤں کی طرف بھاگنا ضروری ہو جاتا ہے۔ کتے کی موت اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر مسجد میں لے جا کر کھڑا کرتی ہے اور میری ۲۸ روز کی سزا مجھے یہ خط لکھنے پر مجبور کر رہی ہے۔ آپ شاید دوبارہ سوال کر بیٹھیں کہ ’’برخوردار وہ کیسے۔۔۔؟‘‘

چچا جان! دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر کا نتیجہ آپ جیسے ماہر جنسیات اور مشہور و معروف افسانہ نگار کو اچھی طرح سے معلوم ہوگا۔ خیر اس قصے کو چھوڑیئے۔ میرا نام حیدر ہے، میرے بزرگ شاید کبھی بھٹیوں میں آباد تھے۔ اس لئے میں مصر ہوں کہ مجھے بھی بھٹی کہو اور میرے کرم فرما مجھے بھٹی کہتے ہیں، جیسے آپ کو منٹو۔ میں سرکاری فرائض انجام دے رہا ہوں۔ جب ارباب حل و عقد چاہتے ہیں میرے سر کوئی نہ کوئی الزام تھوپ کر قید کر دیتے ہیں، جب چاہتے ہیں آزاد کر دیتے ہیں۔ چچا جان۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے۔ بخدا سچ مانئے میں اس قلیل سے عرصے میں پانچ سزائیں کھا چکا ہوں۔ خیر یہ تو میں نے یونہی کہہ دیا۔ ورنہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ پانچ سزائیں مجھے کھا گئی ہیں۔

اب میں قید کا اس قدر عادی ہو گیا ہوں کہ مجھے آزادی سے نفرت ہوتی جاتی ہے، اگر برا نہ مانیں تو آپ کو بھی یہی مشورہ دوں گا کہ ایک اور افسانہ گرم گوشت لکھ ڈالئے۔ زیادہ نہیں تو اتنا ضرور ہوگا کہ کچھ عرصہ تک فکر معاش سے آزاد ہو کر یکسوئی سے کسی تنگ و تاریک کوٹھری کے گوشے میں بیٹھ کر ایک دوسرے افسانے، نرم گوشت کا مواد جمع کر سکیں گے۔ جس سے قید کی مدت ختم ہونے تک اتنی مدت اور آرام کرنے کی تیاری کر سکیں گے۔

چچا جان! آپ کی چار اور اپنی پانچ سزاؤں کا موازنہ کیا اور خط لکھنے بیٹھ گیا کیونکہ اس معاملہ میں مجھے آپ پر برتری حاصل ہے، میرے جرموں کی نوعیت بھی وہی ہوتی ہے جو اکثر آپ کے ہاں نظر آتی ہے، آپ کی تحریر سے حکومت کو ڈر ہے، ’’پبلک کا اخلاق خراب ہو گا۔‘‘ میری باتوں سے ڈسپلن بگڑتا ہے جب ہمارے تمام ساتھی تمام دن گینتی بیلچہ کو محنت کر کے تھکا دیتے ہیں تو آرام کرنے کے بعد چند ایک گنتی کے لمحات میں سے کچھ وقت بچا کر میرے پاس آ بیٹھتے ہیں اور میں ان کو آزاد قوموں کی کہانی سناتا ہوں۔ میری حکومت کا خیال ہے کہ میں ڈسپلن کے نام پر ایک بدنما دھبہ ہوں جو اپنے ساتھیوں کو ایسی آزادی کی باتیں بتاتا ہے اور پھر حکومت اخلاق، نظام اور جانے۔۔۔ کیا کچھ کو مد نظر رکھ کر مجھے قید کر دیتی ہے، جیسا کہ میں اوپر عرض کر چکا ہوں۔۔۔ کچھ اور بھی سنتے چلئے،

ہماری مہربان گورنمنٹ مجھے بیس روپے ماہوار کے حساب سے تنخواہ بھی دیتی ہے، یہ بات دوسری ہے کہ کسی مہینے بیس روپے ملیں یا نہ ملیں۔ اب کے بوٹ پیمنٹ ہو گئے بائیس روپے آٹھ آنے کاٹ لو۔ آپ حیران ہوں گے کہ بیس روپوں سے بائیس روپے آٹھ آنے کیسے کاٹے جاتے ہوں گے، لیکن سنئے تو۔۔۔ ہماری حکومت اس معاملہ میں حد سے زیادہ ہوشیار ثابت ہوئی ہے یعنی میرا مطلب ہے بقایا دوسرے مہینے پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

خدا خدا کر کے دوسرا مہینہ آتا ہے، اب کے قائد اعظم میموریل فنڈ۔۔۔ ضروری ہے۔ رفیوجی فنڈ، یہ پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ مسلمان بھائیوں کی مدد ہم نہ کریں تو کیا فرشتے کریں گے۔ ایک دن عرض کیا ہم بھی تو رفیوجی ہیں، پھر یہ فنڈ کس لئے؟ چچا جان، جانتے ہیں کیا جواب ملا۔ بخدا آپ ہوتے تو شاید خودکشی کر لیتے، لیکن میں ابھی زندہ ہوں اور زندہ رہوں گا کیونکہ ابھی قوم و ملک کے فرائض انجام دینے ہیں، میرے مرنے پر کسی کو بھی ملال نہ ہوگا۔ کوئی آنسو نہیں بہائے گا کیونکہ میں شہید ہوں گا۔ شہیدوں کو جنت میں جگہ ملتی ہے اور میری حکومت بیس روپے کا کوئی اور آدمی تلاش کر لے گی۔ خیر اس ذکر پر لعنت بھیجئے۔ ہمیں ایسی باتیں سوچنے کا کوئی حق نہیں۔ ہمارے لئے یہ کیا کم ہے کہ حکومت ہمیں مبلغ بیس روپے دیتی ہے۔ آپ کو قید بامشقت کے ساتھ تین سو روپیہ جرمانہ سن کر بخار ہی تو آ گیا ہوگا۔ آپ نے فرمایا بھی تو ہے کہ میں مشقت کا عادی ہوں لیکن روپے کا نہیں۔

آپ کی حکومت کچھ دور اندیش نہیں معلوم دیتی، اسے سانپ مارنے آتے ہیں لیکن وہ لاٹھی محفوظ نہیں رکھ سکتی۔ ضرورت بھی کیا پڑی ہے لاٹھی کو محفوظ رکھنے کی، اور بہت سی آ جائیں گی۔ بانس بریلی سے۔ قیمت جنس میں بھی ادا ہو سکتی ہے۔ ہماری حکومت ان معاملوں کو اچھی طرح سے سلجھاتی ہے۔ یہ بانس اگاتی ہے، بانسریاں بجاتی ہیں اور دوسروں سے بجواتی بھی ہے۔

اب ذرا خیال کیجئے۔ آپ کو تین ماہ قید رکھنے سے آپ کی حکومت کو بھلا کیا خاک فائدہ ہوگا۔ یقیناً آپ کو اے کلاس میں ٹھہرایا ہوگا۔ مشقت رہی اپنی جگہ پر۔ اخراجات کا کون کفیل ہوگا۔ آئندہ سال اگر بجٹ میں خسارہ نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔ اگر آپ کے ملک میں آپ ایسے دو تین اور افسانہ نگاراُگ آتے تو۔۔۔ ہائیں، غضب ہی تو ہو گیا۔ ملک کا دیوالہ نکالنے کی سوچی ہے آپ لوگوں نے۔۔۔ ہماری حکومت ان رجعت پسندانہ حرکتوں کو پسند نہیں کرتی، ہمیں اٹھائیس دن قید سنا کر اٹھائیس دنوں کی تنخواہ پر ہاتھ صاف کر دیتی ہے، یا یوں کہیں تو بہتر نہیں ہوگا کہ حکومت کے ہاتھ ہماری اٹھائیس روز کی تنخواہ کو صاف کر دیتے ہیں اور ان اٹھائیس دنوں میں ہمیں کچھ اس قسم کے کاموں پر تعینات کیا جاتا ہے جس کا معاوضہ اٹھائیس دنوں سے کم نہیں ہوتا۔ میرا ملک امیر ہے، ہم تمام امیر ہیں۔ جس کا ثبوت میں موجود ہوں۔

چچا صاحب۔۔۔!

میں نے آپ کے یہاں کے بارے میں کچھ عجیب و غریب سی باتیں سن رکھی ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان کے بارے میں اگر اجازت ہو تو کچھ استفسارات کر لوں۔ اگر آپ اجازت نہ بھی دیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ میں تہیہ کر چکا ہوں کہ آپ سے پوچھوں گا اور ضرور پوچھوں گا۔ میں نے سنا ہے، آپ کے یہاں کی دیسی شراب شرعاً منع ہے لیکن آپ کی حکومت خدا داد کا خدائی قانون اس کے ٹھیکوں کو رجسٹرڈ کرتا ہے اور شارع عام پینے کی اجازت ہے اور واعظ منبر پر چڑھنے سے پہلے ایک دو پیگ بطور دوائی کے یومیہ چڑھا لیتا ہے، لیکن چچا جان! ہمارا حاکم ایسی شرعاً ممنوع لیکن قانوناً جائز چیزوں کو قبول نہیں کرتا۔ ہماری مہربان سرکار ہمیں گڑ اور کھوپرا ارزاں نرخوں پر مہیا کرتی ہے۔ گڑ میں پاکستان کی مٹھاس اور کھوپرے میں بنگال کی گرمی ہے، اگر کچھ پیسے بچ جائیں تو ہندوستانی قسم کے کم خرچ بالانشین کپڑے بھی بنوا لیتے ہیں، لیکن ایسے موقعے شاذو نادر ہی آتے ہیں۔

اور یہ بھی سنا ہے کہ آپ کے یہاں سے ایک جریدہ ’’سویرا‘‘ کے نام سے شائع ہوتا ہے لیکن حکومت کو اس کے نام سے چڑ ہے، چڑ کیوں نہ ہو۔۔۔ حکومت آپ ہی سے کب مطمئن ہے پھر جس پرچے میں آپ کے مضمون شائع ہوں گے وہ کیسا ہوگا؟چچا جان! مجھے تو یہاں بھی کچھ ایسا نظر آتا ہے جیسے آزاد ملکوں کی کہانیاں سنائی جا رہی ہوں۔ کیا آپ مدیر سویرا، کو میرا یہ مخلصانہ مشورہ عرض نہ کریں گے کہ وہ اپنے پرچے کا نام، شام، رکھ لیں۔ ہرج ہی کیا ہے، اگر پوچھیں کیوں؟ تو اپنی طرف سے فرما دیں کہ جس طرح بچوں کو سویرے سے نفرت ہوتی ہے اسی طرح ہماری نوزائیدہ حکومت بھی حق بجانب ہے، صبح اٹھنا، اسکول جانا، ماسٹر کی مار، یہ سب خرافات نوعمر بچہ برداشت نہیں کر سکتا۔

اور یہ بھی۔۔۔! کہ سچ بولنے والوں کی آپ کے ملک میں بڑی قدر ہے، میں تو یہ بیس روپے چھوڑ چھاڑ کر آپ کے ملک میں وارد ہو گیا ہوتا، اگر کہنے والا ندیم قاسمی کی مثال نہ دیتا۔ ہاں تو چچا جان، کیا یہ سچ ہے کہ حکومت کو جس آدمی پر یقین آ جائے کہ وہ ہمیشہ سچ کہتا ہے، سچ لکھتا ہے، حکومت اسے تمام معاشی فکروں سے آزاد کرا دیتی ہے اور اس کے لئے علیحدہ بنگلہ میں رہنے کا انتظام کرا دیتی ہے اور اس بنگلہ کی فلک بوس دیواریں دنیا کے دروغ گوؤں کا غوغا اندر جانے سے روکتی رہتی ہیں اور پھر وہ عمر کا ایک قیمتی وقت اسی جگہ گزارتا ہے اور یہی گاہے گاہے ان بنگلوں کو نوازتے رہتے ہیں۔

اور یہ بھی۔۔۔! کہ آپ کے یہاں حکومت بوڑھے اور غریب و تباہ حال مہاجروں کو جن کے ساتھ جنس لطیف قسم کے ایک دو تین کمزور سے سہارے ہوں، آباد کرنے میں بہت عجلت سے کام لے رہی ہے، ان کا راشن کارڈ سب سے پہلے بن جاتا ہے، انہیں دکان وغیرہ الاٹ کرانے میں خاصی دقت محسوس نہیں ہوتی اور تحصیلدار صاحب زمین بھی دینے میں قطعاً دیر نہیں کرتے اور وقت بے وقت مکان کے گرد پولیس کے سپاہی بھی نظر آ جاتے ہیں، سوچتا ہوں چلا آؤں، لیکن نہیں چچا جان! آپ کو اپنا ملک مبارک اور ہمیں ہمارا۔

اور یہ بھی کہ۔۔۔! کہ حکومت نے آپ کی اپیل پر آپ کو رہا کر دیا۔ یہ سن کر ششدررہ گیا۔ آپ کی حکومت مقدمہ چلا کر اپیل کی بھی اجازت دے دیتی ہے۔ یہ بذات خود بری چیز ہے اس میں حکومت کو نقصان ہی نقصان ہے۔ یقین مانئے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ یا تو کسی پر مقدمہ چلایا ہی نہیں جاتا۔ اگر مجبور ہو کر چلانا ہی پڑے تو پھر مجرم کی کوئی اپیل سنی نہیں جاتی۔ اس کا راشن کارڈ ضبط کر لیا جاتا ہے۔ اس پر دنیا کے تمام ڈپو بند ہو جاتے ہیں، چچا جان! آپ کے اپیل پر رہا ہونے سے اوروں کا تو علم نہیں، مجھے سخت ذہنی صدمہ پہنچا ہے، اے کاش کہ آپ خالص اسلامی جیل خانے کی بھی ہوا کھا آتے۔ پہلے مقدموں میں آپ کو انگریزوں کی خرافاتی جیل میں رکھا گیا تھا، اب کے آپ اسلامی اصولوں پر بنے ہوئے جیل خانے میں جاتے، بخدا چچا جان! عاقبت سدھر جاتی۔

اور یہ بھی۔۔۔! کہ آپ کے یہاں پناہ گزینوں کو آباد نہیں کیا جاتا۔ جنہیں غلطی سے آباد کر دیا گیا ہے، ان سے دس گنا زیادہ مالیہ لیا جا رہا ہے اور اگر مالیہ دینے میں پس و پیش کریں تو جیل کی سیر کروا دی جاتی ہے اور یہ تمام مالیہ ’’رفیو جی فنڈ‘‘ میں جمع ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہ۔۔۔ جس جگہ پہلے ایک آدمی کام کرتا تھا، اب دس رکھ لئے ہیں لیکن متعلقہ حاکموں کو اس پر بھی عملے کے ناکافی ہونے کی شکایت ہے۔ اور یہ بھی۔۔۔ کہ پچھلے دنوں کسی اخبار کے ایڈیٹر نے فنانشل کمشنر کے درخواست گزاری، پوچھا گیا کیا چاہتے ہو؟ ایڈیٹر بولا چھاپہ خانہ۔ لیکن صاحب فراست نے برف خانہ الاٹ کر مارا۔

چچا جان! خط ضرورت سے زیادہ طویل ہو گیا ہے، معافی چاہتا ہوں۔ امید ہے معاف کیا جائے گا۔ یار زندہ صحبت باقی، پھر ملیں گے۔ ٹاٹا

تمہارا حیدر بھٹی

(اس مہینہ کی تنخواہ سے پانچ آنے بچائے تھے۔ ایک آنہ ادھار لے کر یہ خط پوسٹ کر رہا ہوں۔ )

***

سعادت حسن منٹو کا جواب

پیارے بھتیجے۔ وعلیکم السلام

تمارا خط ملا چشم ما روشن دل ما شاد۔ بچے تم کیسے کہتے ہو کہ میں تمہیں نہیں جانتا اور میں نے تمہیں جاننے کی کوشش نہیں کی۔ کوشش کا میری جان سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دس کروڑ مسلمانوں کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس لئے کہ یہ تمہارے چچا نہیں ہیں۔ جب تم نے مجھ سے خطاب کیا ہے تو صرف میں جواب دہ ہوں۔

تم نے بندر اور بلیوں والی کہانی بیان کی ہے، ایک نئے انداز میں لیکن میری جان میں ایسی کئی کہانیاں لکھ چکا ہوں۔ اس لئے کہ کہانیاں لکھنا میرا پیشہ ہے اور میں اس فن میں کافی مہارت رکھتا ہوں۔ ’دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر‘ کا نتیجہ کیا ہوتا ہے مجھے معلوم نہیں کہ اس کے متعلق خواجہ خضر صاحب ہی حتمی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں، لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ دریا اور مگرمچھ سے ’ماہر جنسیات‘ کا کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ تم نے اپنے خط میں ایسی باتیں کہی ہیں، کہ میں لب کشائی سے ڈرتا ہوں۔ میں نے چار سزائیں نہیں صرف ایک سزا ابھی تک بھگتی ہے۔ بھگتی نہیں کہنا چاہیئے میرا ارادہ اپیل کرنے کا ہے، ہائیکورٹ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ میرا ’ٹھنڈا گوشت‘ فحش ہے۔ تین سو روپے جرمانہ ہوا ہے۔ اس کی عدم ادائیگی کی صورت میں ایک مہینے کی قید بامشقت کا حکم تھا۔

میرا گوشت تو ٹھنڈا نہیں، اگر ٹھنڈا ہوتا تو میں ایسے افسانے کبھی نہ لکھ سکتا جنہیں حکومت گرم سمجھتی ہے اور مجھ پر آئے دن مقدمے چلاتی رہتی ہے۔ میری جان! حکومتوں کے متعلق تم مجھ سے کچھ نہ کہو، تم حکومت میں ہو، میں ادب کی دلدل میں پھنسا ہوں، اصل میں جب تک ایسی حکومتیں قائم ہیں ہر جگہ، ہر مقام دلدل ہے۔ تم نے اپنا رونا رویا ہے میں نے اپنا۔۔۔ میرا خیال ہے کہ اب یہ رونا دھونا چھوڑا جائے۔ رونا تو قطعاً چھوڑ دینا چاہیئے البتہ دھونا ضرور چاہیئے۔ آؤ میں اور تم مل کر وہ داغ دھبے دھوئیں جو ہماری معاشرت کے دامن پر لگے ہیں۔ تم قوم کے خادم ہو۔ ایک بہت بڑی ہستی، لیکن میری جان میں کیا ہوں؟ ایک فحش نگار۔۔۔ تم مجھ سے ہر حال میں برگزیدہ ہو۔ تم بیس روپے ماہوار پر وطن کی خدمت کر سکتے ہو۔ میں بمشکل اپنا ایک مضمون بیس روپے کے عوض بیچنے میں کامیاب رہتا ہوں۔

ہاں۔۔۔ اگست کی چودہ آ رہی ہے جب برصغیر تقسیم ہوا۔ پاکستان بنا اور ہم سب آزاد ہوئے۔ یہاں یوم استقلال منایا جا رہا ہے۔ وہاں ہندوستان میں بھی کوئی اسی قسم کا یوم یقیناً منایا جائے گا۔ میں تمہارا یہ خط خاص اس تقریب کے لئے پریس کے حوالے کر رہا ہوں کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

تمہارا محکوم پاکستان میں آزاد چچا

سعادت حسن منٹو


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.