چھاپے کی ایجاد کا بیان
ظاہر ہووے کہ سب صنعتوں سے چھاپا بہت بہتر صنعت ہے اور اس کے فائدے اور منفعتیں بہت ہیں کیونکہ اس کے وسیلے سے بہت نوع کے علوم اور بہتیرے فنون دنیا میں رواج پائے اور لوگوں میں ظاہر اور مشہور ہوئے اور یقین ہے کہ اس کے فائدے بادشاہت کے فائدے کے برابر ہیں۔
جس وقت یہ صنعت ایجاد نہ ہوئی تھی لوگ قلم سے لکھتے تھے اور کتابوں کی طرف سےمحتاج تھے اور اس زمانے میں علم بہت کم اور نایاب تھا اور علماء جن کتابوں کو تصنیف کرتے تھے سب ملکوں میں پھیلنے نہیں پاتیں تھیں اور رواج ان کا بہت کم ہوتا تھا۔ اس کے سوائے یہ ہے کہ وہاں کے رہنے والے جہاں کہ کوئی کتاب تصنیف ہوتی تھی، بہت دنوں میں ان کتابوں کو تھوڑا سا جانتے تھے۔ دوسرے ملک کے لوگوں کو ان کتابوں کا جاننا بہت مشکل ہوتا تھا۔ بہت دنوں کے بعد کہیں ان لوگوں کو خبر ہوتی تھی۔ اس سبب سے علم کا بازار بہت ہی سرد تھا اور عالم بہت کم تھے اور ان کی مجلسیں بے رونق تھیں۔ اس وقت میں ولایت کے لوگ اصلاً علم سے بہرہ نہیں رکھتے تھے اور کچھ نہیں جانتے تھے۔ سب کے سب جاہل تھے اور جہالت کی تاریکی میں رہتے تھے۔ اس وقت میں یہ بات تھی کہ چند آدمی بقدر ضرورت لکھنے پڑھنے کو جانتے تھے لیکن اچھے علوم اور فنون سے سروکار نہیں رکھتے تھے۔
جب سے چھاپے نے دنیا میں رواج پایا تب سے اتنی بے شمار کتابیں چھاپی گئیں کہ دنیا علم کے نور سے روشن ہوگئی اور بہت لوگ عالم ہوئے اور ان کی مجلس کو رونق ہوئی۔ اگلے زمانے میں دنیا جہالت کی تاریکی سے جیسی تاریک تھی، چھاپا ہونے کے بعد انواع علوم اور فنون کے نور سے ویسی ہی روشن ہوئی۔ اس صنعت کے وسیلے سے جھوٹ اور سچ میں اچھی طرح سے جلد امتیاز ہو سکتا ہے کیوں کہ بہتیری کتابیں چھپتی ہیں اور ہر ایک ملک میں جانے کے بعد جبکہ لوگ انھیں دیکھیں گے اور فکر و تامل کریں گے، اپنی عقل کے زور سے بخوبی جھوٹ اور سچ میں تمیز کر سکیں گے۔ اگر کوئی شخص کوئی کتاب تصنیف کرے تو چھاپے کے سبب سے جلد مشہور ہو جاتی ہے اور مشہور ہونے کے بعد جب لوگ دیکھیں اور پسند کریں تو یقین ہوگا کہ جو اس میں ہے سب سچ ہے۔
خلاصہ یہ کہ صنعت چھاپے کی فائدہ بے حساب و بے شمار رکھتی ہے۔ اگر چھاپا نہ ہوتا تو بہتیرے علم کے دروازے بند ہو جاتے۔ جاننا چاہئے کہ فائدے کی معتبر کتابیں اگر چھپیں تو بہت دن تک رہتی ہیں اور اگلے زمانے میں جب بہتیرے ملک غارت ہوئے مثلاً یونانی اور رومیوں کی کتابیں جو قلمی تھیں، جب وہ ملک غارت ہوا توان کی آدھی کتابیں غارت ہوگئیں۔ جب چھاپا ظاہر ہوا، ان کی باقی کتابیں چھاپی گئیں اور وے ساری کتابیں آج تلک موجود ہیں اور ان کی کتابیں اس قدر چھپیں کہ تمام ملک میں پھیل گئیں اور دنیا میں مشہور ہو گئیں۔ اب ممکن نہیں کہ وے سب کتابیں غارت ہوں۔ کیوں کہ وے کتابیں اگر کسی آفت کے سبب سے ایک ملک میں غارت ہو جائیں تو دوسرے ملک میں البتہ موجود ہوں گی۔
یہ بھی جاننا چاہئے کہ صنعت چھاپا ظاہر ہونے کے بعد فائدے کی کتابوں سے کوئی کتاب نقصان نہیں ہوئی اور اگلے اخبار اور قصے اور ان کے احوال صنعت چھاپا ظاہر ہونے کے آگے کسی کو معلوم نہ تھے بلکہ سب جہالت میں پڑے تھے، اور جو لوگ صنعت چھاپا ظاہر ہونے کے آگے تھے کوئی آدمی ان کے احوال سے خبر نہیں رکھتا تھا بلکہ ان کی اولاد اور پوتے انھیں نہیں جانتے تھے کہ ان کے باپ کس قوم سے تھے اور کون مذہب رکھتے تھے اور کس دین سے تھے کیوں کہ جو احوال ان کا لکھا ہوا تھا سب معدوم ہو گیا۔
ہندو پنڈتوں کی بہتیری کتابیں معدوم ہوگئیں، اب سوائے نام کے کچھ باقی نہ رہا اور جس قدر موجود ہیں اگر چھپتیں تو بے شک ہمیشہ باقی رہتیں۔ چوں کہ صنعت چھاپے کی شان بہت بڑی ہے اور اس کے ایجاد کرنے والے کے کمال پر دلیل ہے، اس واسطے شہر ہارلم کے لوگوں سے جو ملک جو ہولینڈ سے متعلق ہے اور شہر منش کے لوگوں سے، جو ملک جرمن سے متعلق ہے صنعت چھاپے کی ایجاد کرنے میں قضیہ ہوا ہے۔ ان دونوں فرقے میں سے ہر ایک فرقہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہم نے اس صنعت کو ایجاد کیا ہے لیکن شہر منش کے لوگوں کا دعویٰ بلا دلیل ہے کوئی گواہ شاید نہیں۔ یہ صرف دعویٰ ہے کیوں کہ عالموں کی تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ شہر ہارلم کے لوگوں نے چھاپا ایجاد کیا ہے اور یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ شہر منش کے رہنے والوں نے اس صنعت کو زیب و زینت بخشی ہے اور رونق دی ہے نہ کہ ایجاد کیا ہے۔
اغلب کہ ایک ہزار چار سو تیس سن ۱۴۳۰ء میں لارن شش نام کے ایک شخص نے شہر ہارلم میں بازی کے لئے ایک درخت کے سر پر حروفوں کا نقش بنایا اور اس میں سیاہی ڈال کے اس پر ایک سفید کاغذ وصل کردیا اور جب اسی کاغذ کو اٹھایا تو حرفوں کا نقش بہت اچھا ظاہر ہوا۔ لوگوں نے اس کو دیکھ کے لکڑی پر حرف کھود کے چھاپا شروع کیا۔ بعد اس کے چھوٹی چھوٹی لکڑیوں پر ایک ایک حرف کھود کے بہتیری کتابیں چھاپی گئیں۔ اس صنعت کی ایجاد کا بیان یہی ہے۔
جاننا چاہئے کہ چھوٹی لکڑیوں پر حروف کھودنے میں بڑی دیر ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ ایک کتاب چھاپنے میں چھ سات برس گذر جاتے تھے۔ بارہ برس گذرنے کے بعد یعنی ایک ہزار چار سو بیالیس سنہ ۱۴۴۲ء میں فشتش نام کا ایک شخص جو چھاپے خانہ میں تھا، تمام حروف اور سارا اسباب ایک کارخانہ کالے کے رات کو وہاں سے بھاگ کر شہر منش میں گیا اور وہاں اس صنعت کو رواج دیا اور کتاب چھاپنے میں مشغول ہوا۔ دوتین برس کے بعد جب دیکھا کہ جن لکڑیوں پر حروف کھودے ہوئے ہیں تھوڑے دن میں گھس جاتے ہیں اور ناکارہ ہوتے ہیں۔ اس طرز کو چھوڑ کے سیسے پر حروف کھودنے لگے۔ پس چھاپا کرنے کے دو طریق ہو گئے۔
پندرہ برس گذرنے کے بعد یعنی ایک ہزار چار سو ستاون سنہ ۱۴۵۷ء میں شیپہر نام کا ایک شخص اس کام میں فشتش مذکور کا شریک ہوا اور ان دونوں نے آپس میں عہد و پیماں اور قول و قرار کیا کہ جس قدر نفع ہوگا آدھے حصے کو لیں گے۔ اب دونوں اس کام میں مشغول ہوگئے۔ چونکہ حروف کے نقش کھودنےمیں بڑی دیر ہوتی تھی، شیپہر نے اس طریقے کو چھوڑ کے دوسرا طریقہ اختیار کیا، وہ یہ ہے کہ حروف کے نقش کو پہلے فولاد پر کھودا اور اس کے بعد اس کو تانبے پر زور سے ٹھونکا اور جب حروف کے نقش تانبے پر ظاہرہوجاتے ہیں، بعد اس کے ان حروفوں کو جو تانبے پر ظاہر ہوتے ہیں، شیشہ گلا کے ڈھالتے ہیں۔ اس طور سے حروف بہت ہی خوب ظاہر ہوتے ہیں۔ جتنے حروف چاہیں اس طرح تیار کر سکتے ہیں۔ پس یہ تین طریقے ہیں۔
چونکہ سیسہ بہت نرم ہے اس لئے اس میں سونا ملاتے ہیں تب وہ سخت اور مضبوط ہو جاتا ہے۔ بتیس برس گذرنے کے بعد یعنی ایک ہزار چار سو باسٹھ سنہ ۱۴۶۲ء میں جس وقت جرمن ملک کے بادشاہ نے شہر منش پر چڑھائی کی اور اس کے سبب ملکوں پر فتح مند ہوا، چھاپے والے بھاگے اور چاروں طرف چھپ گئے اور چھاپے کا اسباب بھی ہر ایک ملک میں پہنچا۔ تب ہر ایک ملک کے لوگ اس صنعت سے واقف ہو گئے اور کئی برس بعد فرنگلستان کے ملکوں میں یہ صنعت پھیل گئی۔ پس معلوم ہوا کہ اس صنعت کے ایجاد کرنےوالے فقط ملک ہولینڈ کے لوگ ہیں تو بے شک وے مدح کے مستحق ہیں اور تعریف کے لائق ہیں۔ لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ہے کہ ملک انگلستان میں کس برس سے چھاپا شروع ہوا ہے۔ بہت دن تلک لوگوں کا گمان یہ تھا کہ ایک ہزار چار سو ستر سنہ ۱۴۷۰ء میں پہلے کاسٹن صاحب نے اس ملک میں ایک کتاب چھاپی اور لوگ اسے اس صنعت کا بانی جانتے ہیں۔
مقام آکسفورڈ میں اس صنعت کے پہنچنے کا عجیب ایک قصہ ہے کیونکہ جس وقت ہالینڈ ملک میں یہ صنعت اجراء پائی، شاہ انگلستان کے بڑے وزیر نے بادشاہ کے حضور میں عرض کی کہ اگر یہ صنعت ملک ہالینڈ سے انگلستان ملک میں لائی جائے تو بے شک یہاں کے لوگ اس سے فائدہ مند ہوں گے۔ عرضی اس کی مقبول ہوئی لیکن بادشاہ نے اپنے دل میں سوچا کہ اس صنعت کو چھپا کے لانا چاہئے ورنہ ظاہر کر کے لانا ممکن نہیں۔ خلاصہ یہ کہ اپنے نوکروں میں سے ایک معتبر شخص کے ساتھ جس کا نام کرسلس تھا، کاسٹن صاحب کو ملک ہالینڈ روانہ کیا۔ وہ شخص بھیس بدل کے بہت سے روپے لے کر اس ملک میں چلا۔ وہاں پہ پہنچ کے کتنے دن تلک دو تین جگہ مقام کر کے رہا۔ بھیس بدلنے کا سبب یہ ہے کہ اس چھاپہ خانہ کے لوگ اس صنعت کے سکھانے میں بخیلی کرتے تھے اور بیگانے کی نظر سے چھپاتے تھے اور جو کوئی کسی اطراف سے اور دور دراز ملک سے ہالینڈ ملک میں چھاپا سیکھنے آتا تھا وہ اسے قید کرتےتھے۔
خلاصہ یہ کہ اس شخص نے اچھی اچھی تدبیریں کر کے چھاپہ خانہ کے ایک آدمی سے بڑی دوستی پیدا کر لی اور اس آدمی کو بہت روپے دیے۔ اب وہ شخص روپے کی لالچ سے انگلینڈ میں آنے کو راضی ہوا اور رات کو بھاگنے سمندر کے کنارے آیا اور جو جہاز شاہ انگلستان کی طرف سے وہاں تھا، اس پر سوار ہو کے انگلستان میں آیا لیکن بادشاہ نے لندن میں چھاپہ خانہ کی بناء کو اس وقت مناسب نہ جانا بلکہ اس سے بہت ڈرا۔ لاچار کرسٹن مذکور کو فوج کے ساتھ مقام آکسفورڈ میں بھیجا۔ اس نے وہاں اس کام کی بنا ڈالی۔ جب ملک انگلستان کے دو تین آدمیوں نے اس کام کو اچھی طرح سے نہیں سیکھا اور اس کی حقیقت سے خوب واقف نہیں ہوئے، تب بادشاہ نے دو تین پیادوں کو اس کی نگرانی کے لئے مقرر کیا۔ بعد اس کے روز بروز یہ صنعت بڑھنے لگی اور تمام جگہوں میں جاری ہوئی اور پچاس برس کے بیچ میں کوئی جگہ اس کام سے خالی نہ رہی۔
غرض اس صنعت کی تعریف بے حد و حساب ہے کیونکہ جس چیز کے وسیلے سے علم جو بے بہا چیز ہے، اور اس سے بڑھ کے کوئی نعمت نہیں ہے، ہمیشہ جاری رہے، تو البتہ وہ بے حد تعریف کے لائق ہے۔ قطع نظر اس سے خود چھاپا بذاتہ ایسی چیز ہے جس کی قیمت نہیں اور آگے جن علوم کو ہزار برس میں سیکھتے تھے اب چھاپے کے سبب سے سو برس میں سیکھتے ہیں۔ جاننا چاہئے کہ فرنگستان کے لوگ ہند کے لوگوں کو عقل اور دانائی سکھانے والے ہیں اور بے شبہ انھیں لوگوں کے سبب سے اس ملک میں علم و فضل آیا اور جتنے علوم اس صنعت کے وسیلے سے اس ملک میں پھیلے ہیں، کبھی معدوم نہیں ہوں گے بلکہ علم کا بازار ہمیشہ گرم رہے گا اور عالموں کی مجلس ہمیشہ روشن رہے گی اور فضل و کمال اور ہر طرح کا علم جو ملک فرنگستان میں ہے، اگر ہند کے لوگ ان کو اپنی زبان میں سیکھیں گے تو بے شک روشنی بڑھے گی۔
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |