چھوٹے کام کا بڑا نتیجہ
ایک بچہ کہ ابھی کچھ اسے تمییز نہ تھی
لہو و بازی سے پسندیدہ کوئی چیز نہ تھی
کھیلنا کودنا کھانا یہی معمول تھا بس
انہیں طفلانہ تمناؤں میں مشغول تھا بس
ایک تالاب تھا دو چار قدم گھر سے پرے
دل میں لہر آئی لب آب ذرا سیر کرے
صاف پانی سے جو تالاب کو پایا لبریز
کھیل کا شوق طبیعت میں ہوا اور بھی تیز
آس پاس اپنے جو پایا کوئی کنکر پتھر
پھینک مارا اسے پانی میں بہت خوش ہو کر
کھیل تھا پہلے تو اب طرفہ تماشا دیکھا
دل ہی دل میں متحیر تھا کہ یہ کیا دیکھا
دائرہ ایک بنا ایسا کہ بڑھتا ہے محیط
گھیر لی جس نے کہ تالاب کی سب سطح بسیط
پھر تو کھیل اس کا اسی شغل پہ موقوف رہا
اسی نظارے میں تا دیر وہ مصروف رہا
اسی اثنا میں ہوا بچے کی ماں کا بھی گزر
بولا اماں مجھے آئی ہے عجب چیز نظر
جو نہ دیکھی نہ سنی تھی کبھی اب سے پہلے
شاید آئی ہے نظر مجھ کو ہی سب سے پہلے
اک ذرا سی حرکت اور یہ تاثیر عجیب
دائرہ بڑھ کے پہنچتا ہے کنارے کے قریب
بسکہ جی جان سے اس شعبدے پر تھا شیدا
وسعت دائرہ کی اپنی عمل سے پیدا
تھی وہ ماں اہل دل اور نیک منش نیک نہاد
ہنس کے فرمایا مری جاں یہ نصیحت رکھ یاد
یوں ہی ہر کام کا ہو جاتا ہے انجام بڑا
گو کہ آغاز میں ہوتا نہیں وہ کام بڑا
کبھی ادنیٰ حرکت زلزلہ بن جاتی ہے
کبھی ناچیز سی اک بات غضب ڈھاتی ہے
یہی انداز نکوکاری و بد کاری ہے
اولاً خاص تھی اب عام میں وہ جاری ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |